اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
زوجیت کے واجب حقوق سے روکنے والے بن جائیں گے‘‘۔ (فتح الباری ۴؍۲۱۱) اسی طرح کا واقعہ کتب احادیث میں حضرت عثمان بن مظعون صکا آتا ہے، ان کی اہلیہ کو بھی ان سے یہی شکایت تھی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے سختی سے پوچھا کہ کیا جس دین پر ہمارا ایمان ہے اس پر تمہارا ایمان نہیں ہے؟ انہوں نے عرض کیا کیوں نہیں ؟ اے اللہ کے رسول ا! اس پر آپ نے فرمایا کہ پھر ہمارے اسوہ کی پیروی میں تمہیں کیا مشکل ہے؟ (مسند احمد ۶؍۱۰۶) غور کیا جائے کہ جب نفلی عبادات میں غیر ضروری اشتغال سے روکا جارہا ہے، اور نفل میں مشغول ہوکر حقوق زوجیت میں کوتاہی کرنے والوں کو تنبیہ فرمائی جارہی ہے، تو ان بدقسمت لوگوں کا جرم کتنا سنگین ہوگا جو حقوق زوجیت میں کوتاہ بھی ہیں اور حرام کاریوں میں مشغول بھی ہیں ۔ مذکورہ تفصیل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شوہر کے لئے بیوی کے جنسی تقاضوں کی تکمیل واجب ہے، اور جو اس واجب کو بلا عذر ادا نہ کرتا ہو، امام مالکؒ کے بقول اس کو سمجھایا جائے، پھر بھی نہ مانے تو دونوں کے درمیان تفریق کردی جائے۔ (فتح الباری ۹؍۳۷۳) امام احمد بن حنبلؒ کا بھی یہی قول ہے۔ (ایضاً) اس کے لئے مدت کی تعیین ہے یا نہیں ، اس میں حضراتِ فقہاء کی مختلف آراء ہیں : حضرت امام شافعیؒ کا مشہور قول یہ ہے کہ نکاح کے بعد ایک بار ہم بستری شوہر کے ذمہ واجب ہے۔ (ایضاً) حضرت امام احمد بن حنبلؒ نے چار ماہ کی مدت متعین کی ہے اور یہ تاکید کی ہے کہ اس مدت میں ایک بار ملاقات ضروری ہے، الا یہ کہ کوئی معقول عذر ہو، اس مسئلہ میں ان کی دلیل ایلاء شرعی کا مسئلہ ہے، جس میں شوہر بیوی سے قریب نہ ہونے کی قسم کھالیتا ہے، اس کی مدت چار ماہ مقرر ہے، جس کی تفصیل فقہی کتب میں موجود ہے۔ (المغنی ۷؍۳۰) احناف میں حضرت امام ابن الہمامؒ کا بھی یہی قول ہے۔ (فتح القدیر ۳؍۳۰۲)