اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
سرپرست سمجھا جائے گا‘‘۔ (کتاب الکافی فی فقہ اہل المدینۃ المالکی لابن عبد البر ۲؍۵۲۵) اولیاء کی یہ ذمہ داری ہے کہ محض اپنی انا اور غیرت کی وجہ سے مناسب رشتہ نہ ٹھکرائیں ، اگر عورت کسی رشتے پر راضی ہو، اور وہ مناسب بھی ہو تو سرپرستوں کو اسے قبول کرلینا چاہئے۔ حضرت معقل بن یسار صکا بیان ہے کہ: ’’میں نے اپنی بہن کانکاح کردیا، پھر شوہر نے اسے طلاق دے دی، عدت پوری ہونے کے بعد وہی شخص پھر میری بہن کے لئے پیغام لایا، میں نے اسے جھڑک دیا، میں نے کہا کہ میں نے اپنی بہن کا تم سے نکاح کیا، رخصتی کی، تمہیں عزت دی، مگر تم نے کچھ پروا نہ کی اور طلاق دے دی، میں ہرگز دوبارہ اسے تمہارے عقد میں نہ دوں گا۔ واقعہ یہ ہے کہ وہ آدمی مناسب تھا، اس میں کوئی عیب نہ تھا، میری بہن بھی اس سے دوبارہ عقد چاہتی تھی، چناں چہ قرآن میں آیت اتری: {وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَلاَ تَعْضُلُوْہُنَّ اَنْ یَنْکِحْنَ اَزْوَاجَہُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ (البقرۃ: ۲۳۲)} (جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی عدت پوری کرلیں تو پھر اس میں مانع نہ ہو کہ وہ اپنے زیر تجویز شوہروں سے نکاح کرلیں ، جب کہ وہ معروف طریقے سے مناکحت پر راضی ہوں ) چناں چہ میں نے اپنی بہن کا نکاح دوبارہ اسی سے کردیا‘‘۔ (بخاری: کتاب النکاح: باب من قال لا نکاح الا بولی) کبھی ایسا ہوتا ہے کہ لڑکی کے سرپرست کاروباری مزاج اور سوداگرانہ ذہنیت کے حامل ہوتے ہیں ، اوروہ ایسے رشتے کی تلاش میں رہتے ہیں جس سے مہر کے نام پر یا کسی اور عنوان سے اچھی رقم مل جائے، اس انتظار میں لڑکی کے مناسب رشتے ٹھکرائے جاتے ہیں اور لڑکی کی عمر ڈھلتی جاتی ہے، کبھی لڑکی ملازمت پیشہ ہوتی ہے، اور اس کے ذریعہ آنے والی تنخواہ کی حرص اور شادی کے بعد اس ذریعۂ آمدنی کے بند ہوجانے کی فکر اولیاء کو لڑکی کا رشتہ کرنے سے روکے رکھتی ہے، اور یہ عمل بالآخر لڑکی کی بے رونق زندگی یا بدکرداری پر منتج ہوتا ہے، اسلام سرپرستوں کو ایسی لالچ اور غفلت سے شدت سے منع کرتا ہے، امام ابن تیمیہؒ نے وضاحت کی ہے کہ لڑکیوں کا مناسب اور بروقت رشتہ کرانا سرپرستوں کا فریضہ ہے، یہ امانت ہے،