اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
خاتون کا نکاح ولی کی اجازت کے بغیر درست ہے، ہاں ولی کی اجازت مستحب ہے، لازم نہیں ہے۔ امام صاحبؒ کی دوسری اورمفتیٰ بہ روایت یہ ہے کہ عورت اگر اپنے کفو (جوڑ) میں نکاح کرلے تو ولی کی اجازت کے بغیر درست ہے، ورنہ درست نہیں ہے۔ ذخیرۂ احادیث میں دونوں آراء کی تائید موجودہے؛ البتہ ولی کی اہمیت اور اس کی سرپرستی، اور عورت کو ولی کی اجازت کے بغیر ازخود نکاح نہ کرنے کی تلقین اور بلاولی کی اجازت از خود نکاح کرنے پر سخت ترین وعیدات کے تعلق سے احادیث میں بہت مواد موجود ہے۔ احادیث میں یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کاحاکم وامیر اس خاتون کا ولی اور سرپرست ہے جس کا کوئی قریبی رشتہ دار اور ولی نہ ہو، یہ بھی وضاحت ہے کہ اگر قریبی رشتہ دار موجود نہ ہو، سفر پر ہو یاقید میں ہو، تو دور کا رشتہ دار یامسلمانوں کا حاکم (حسب اختلافِ فقہاء) لڑکی کا سرپرست ہوگا۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے: فتح الباری ۹؍۲۲۴، المجموع شرح المہذب ۱۵؍۳۰۲، الہدایہ ۲؍۳۱۳، باب الاولیاء، تبیین الحقائق ۲؍۱۱۷، مسند احمد ۱؍۲۵۰) سرپرستوں کو شریعت کی یہ تلقین بھی ہے کہ وہ لڑکی کے رشتے میں باہم نااتفاقی کے ذریعہ یا کسی اور وجہ سے خلل نہ ڈالیں ۔ ایک حدیث میں آیا ہے: فَاِنْ اِشْتَجَرُوْا فَالسُّلْطَانُ وَلِیُّ مَنْ لاَ وَلِیَّ لَہٗ۔ (مشکاۃ المصابیح باب الولی ۲۷۰ بحوالہ ترمذی ومسند احمد) ترجمہ: اگر اولیائِ نکاح باہم اختلاف کریں توایسی صورت میں بادشاہ ولی ہوجائے گا۔ بقول امام ابن عبد البرؒ: ’’اگر لڑکی کے کئی سرپرست ہوں اور سب درجے میں برابر ہوں ، اور باہم اختلاف کریں ، کسی رشتے پر متفق نہ ہوں ، تو حاکم اپنی صواب دید سے رشتہ طے کرسکتا ہے، وہی