اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
طہارت ہے۔ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ’’اس آیت سے یہ اصول معلوم ہوتا ہے کہ عورت کا پورا جسم ستر ہے، اسے چھپانا ضروری ہے، بلاضرورتِ شدیدہ اس کا اظہار جائز نہیں ہے، براہِ راست یہ حکم ازواج مطہرات کے بارے میں ہے؛ لیکن دوسری عورتیں بدرجۂ اولیٰ اس حکم کی مخاطب ہیں ‘‘۔ (الجامع لاحکام القرآن ۱۴؍۲۲۷) علامہ شنقیطی نے لکھا ہے: ’’اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ یہ آیت ازواجِ مطہرات کے ساتھ خاص ہے، تب بھی اس امر میں کسے شک ہوسکتا ہے کہ ازواجِ مطہرات پوری امت کے لئے سب سے بہتر نمونہ ہیں ، آج بے پردگی اور عام مخلوط مجالس اور تعلیم کی دعوت دینے والے بدباطن افراد اگر عورتوں کو ازواجِ مطہرات کی پیروی سے روکتے ہیں تو وہ اپنے دل کے روگ اور اپنے باطن کی غلاظت کا اظہار کرتے ہیں ‘‘۔ (اضواء البیان: محمد امین شنقیطی ۶؍۵۹۲) مخلوط مجالس، مخلوط تعلیم، جمہوری اداروں اور دفاتر میں مرد وزن کا آزادانہ اختلاط اور میل جول دلوں کو گندا کرنے والا عمل ہے، جسے قرآن کے حکم حجاب کو نہ ماننا ہو وہ صاف انکار کردے، مگر قرآن کے حکم کی علانیہ مخالفت اور ڈھٹائی کے ساتھ اسے دلوں کی غلاظت کا ذریعہ نہ تسلیم کرنا انتہائی ذلیل حرکت ہے۔ قرآن ہر خاتون کو صراحۃً تاکید کرتا ہے: وَلاَ تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْاُوْلیٰ۔ (الاحزاب: ۳۳) ترجمہ: زمانۂ جاہلیت کی طرح سج دھج مت دکھاتی پھرو۔ عورت کے لئے بے پردگی، اجنبیوں کے سامنے اپنے محاسن ومفاتن کا اظہار اور اپنے چہرے اور زینت کی نمائش اس آیت میں حرام قرار دے دی گئی ہے، اس میں کسے شبہ ہوسکتا ہے کہ عورت کے حسن وجمال کا اصلی مرکز اس کا چہرہ ہے، جسم کے دیگر حصوں کو مستور رکھا جائے اور مرکز حسن چہرے کو کھلا رکھا جائے، یہ کب معقول بات ہوسکتی ہے؟ اسی لئے