اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
اس حدیث سے پردے کے تعلق سے اسلام کے نظام کی اہمیت اور نزاکت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ حضرت انس صسے مروی ہے کہ ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فتح خیبر کے بعد نکاح فرمایا، کچھ مسلمانوں کو شبہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نکاح فرمایا ہے یا باندی بنایا ہے، پھر انہوں نے باہم طے کیا کہ دیکھا جائے کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کا عام مسلمانوں سے پردہ کراتے ہیں ؟ اگر پردہ کراتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے نکاح فرمایا ہے، اور اگر پردہ نہیں کراتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں باندی بنایا ہے، چناں چہ دیکھا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کا پردہ کراتے ہیں ، پھر سب کو یقین ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں زوجیت میں لے لیا ہے۔ (صحیح مسلم: کتاب النکاح: باب فضیلۃ اعتاقہ امتہ) اس حدیث سے پردے کی اہمیت اور صحابہ ث کی طرف سے اس کے اہتمام کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ واقعۂ افک کے ذیل میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضرت صفوان بن معطل سلمی صصبح کے وقت اس مقام پر پہنچے جہاں میں قافلہ سے بچھڑگئی تھی، اور قافلہ کی واپسی کی منتظر تھی، پردے کا حکم آنے سے پہلے وہ مجھے دیکھ چکے تھے، انہوں نے دیکھتے ہی مجھے پہچان لیا، اور زور سے ’’انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘ پڑھا، جسے سن کر میں نیند سے بیدار ہوگئی، فوراً میں نے اپنے چہرے کو چادر سے ڈھانک لیا۔ (بخاری شریف: کتاب المغازی: باب حدیث الافک) اس حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پردے کا تعلق چہرہ سمیت پورے جسم کو ڈھانکنے اور مستور رکھنے سے ہے، پردے کے سلسلہ میں صحابہ وصحابیات کے احتیاط کا عالم یہ تھا کہ ایک بار حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی چچا ’’افلح‘‘ ملاقات کے لئے آئے، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پردے کا اہتمام کیا اور ان سے ملنے سے انکار کردیا، پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو واقعہ بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسئلہ بتایا کہ وہ تمہارے رضاعی چچا