اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
بلاضرورت آواز نکالنے سے بھی روکتا ہے، کیا وہ کبھی اس کو پسند کرسکتا ہے کہ عورت اسٹیج پر آکر گائے، ناچے، تھرکے اور ناز نخرے دکھائے؟ کیا وہ اس کی اجازت دے سکتا ہے کہ ریڈیو پر عورت عاشقانہ گیت گائے اور سریلے نغموں کے ساتھ فحش مضامین سناسنا کر لوگوں کے جذبات میں آگ لگائے؟ کیا وہ اسے جائز رکھ سکتا ہے کہ عورتیں ڈراموں میں کبھی کسی کی بیوی اور کبھی کسی کی معشوقہ کا پارٹ ادا کریں ؟ یا ہوائی میزبان بنائی جائیں اور انہیں خاص طور پر مسافروں کا دل لبھانے کی تربیت دی جائے؟ یا وہ کلبوں اور اجتماعی تقریبات اور مخلوط مجالس میں بن ٹھن کر آئیں ، اور مردوں سے خوب گھل مل کر بات چیت اور ہنسی مذاق کریں ؟ یہ کلچر آخر کس قرآن سے برآمد کی گئی ہے؟ خدا کا نازل کردہ قرآن تو سب کے سامنے ہے، اس میں کہیں اس کلچر کی گنجائش نظر آتی ہو تو اس مقام کی نشان دہی کردی جائے‘‘۔ (تفہیم ۴؍۸۹-۹۰) قرآنِ کریم میں فحاشی کی اشاعت کی تمام صورتوں کو ممنوع وحرام بتایا گیا ہے، جیساکہ اوپر ذکر آچکا ہے۔ اور اس کے عموم میں بدکاری کے اڈے قائم کرنا، بداخلاقی اور بے راہ روی کی تحریک پیدا کرنے اور جذبات برانگیختہ کرنے والے اشعار، گانوں ، تصویروں ، کھیل تماشوں ، قصوں اور افسانوں کا چلن، جسمانی، لباسی اور تصویری ہر طرح کے عریاں مظاہرے، مخلوط تفریحات اور رقص وسرود کے انتظامات سبھی آجاتے ہیں ۔ قرآن کے انتہائی واضح الفاظ میں یہ سب حرکتیں جرائم ہیں اور صرف آخرت ہی میں نہیں ، دنیا میں بھی ان کی سزا مل کر رہنی چاہئے۔ بقول عطاء ابن ابی رباح: عَلی مَنْ اَشَاعَ الْفَاحِشَۃَ نُکْلٌ وَاِنْ صَدَقَ۔ (المحلی لابن حزم ۱۱؍۲۸۱) ترجمہ: بے حیائی پھیلانے والے کو عبرت ناک سزا دی جائے گی، خواہ وہ سچا ہی کیوں نہ ہو۔ اسلامی حکومت اور معاشرے دونوں کا فرض ہے کہ فحاشی کی اشاعت وترویج کے تمام