اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ فِی الدُّنْیَا وَالاٰخِرَۃِ۔ (النور: ۱۹) ترجمہ: بلاشبہ جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اہل ایمان میں فحش پھیلے، وہ دنیا وآخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں ۔ اس آیت سے انسدادِ فواحش کے اسلامی اور قرآنی نظام کو سمجھا جاسکتا ہے، یہ آیت فحش پھیلانے کی تمام صورتوں کو جامع اور محیط ہے، اور واضح اعلان کررہی ہے کہ: ’’معصیت اور فحاشی کی اشاعت، خواہ زبان وقلم سے ہو، یا آرٹ کے نمونوں اور تمدن کے آثار سے، اس کا اظہار بھری محفلوں میں ہو یا انفرادی صحبتوں میں ، یہ ایک جرم ہے، انتہائی گھناؤنا جرم، جسے کسی طرح برداشت نہیں کیا جاسکتا‘‘۔ (عورت اسلامی معاشرے میں ، مولانا جلال الدین عمری ۳۲۵) ان چیزوں کے علاوہ موبائل اور سیل فون کی سہولتیں بھی زنا کے فروغ میں اہم کردار ادا کررہی ہیں ، رات کے اوقات میں کا لیں فری ہونا یا کال ریٹ میں نمایاں تخفیف بھی اسی کا اہم حصہ ہے، سروے سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ ٹیلی فونگ گفتگو عموماً بدکاری پر منتج ہوتی ہے۔ کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور ان پر چیٹنگ کے رجحان عام نے اخلاقیات کا دیوالیہ نکال دیا ہے، حرام کاری اور گھروں سے فرار کے واقعات زیادہ تر اسی کی دین ہیں ، ملازمت پیشہ خواتین جو مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں ، ان میں اکثر جوہر عفت وعصمت گنواکر رہتی ہیں ، خواہی نہ خواہی ان کو ایسا کرنا ہی پڑتا ہے۔ فلم، ڈرامہ، ویڈیو گیم، ناول، افسانہ، حسن اور جنسی ہوس ناکی کے مقابلے سب اسی فاحشۂ زنا کو علانیہ عام کرنے کے مقصد سے وجود میں لائے گئے ہیں ۔ شریعت محمدی میں ان سب پر روک تھام لگائی گئی ہے، اور ہر اس شگاف کو پاٹنے کی کوشش کی گئی ہے جو زنا وبدکاری کی تحریک کریں ، اور جن سے عریانیت اور فحاشی کو راستہ مل سکتا ہو۔ ایک مفکر کے بقول: ’’اب یہ ذرا سوچنے کی بات ہے کہ جو دین عورت کو غیر مرد سے بات کرتے ہوئے بھی لوچ دار انداز گفتگو اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اسے مردوں کے سامنے