اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
پامال کرنے کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے، گانے باجے کی حرمت کو امام ابن الجوزی نے یوں بیان کیا ہے: اِعْلَمْ اَنَّ سَمَاعَ الْغَنَائِ یَجْمَعُ شَیْئَیْنِ: اَحَدُہُمَا اَنَّہٗ یُلْہِی الْقَلْبَ عَنِ التَّفَکُّرِ فِیْ عَظْمَۃِ اللّٰہِ سُبْحَانَہٗ وَالْقِیَامِ بِخِدْمَتِہٖ۔ وَالثَّانِیْ اَنَّہٗ یُمِیْلُہٗ اِلَی اللَّذَّاتِ الْعَاجِلَۃِ الَّتِیْ تَدْعُوْ اِلیٰ اِسْتِیْفَائِہَا مِنْ جَمِیْعِ الشَّہَوَاتِ الْحِسِّیَّۃِ، وَمُعْظَمُہَا النِّکَاحُ وَلَیْسَ تَمَامَ لَذَّتِہٖ اِلاَّ فِیْ الْمُتَجَدِّدَاتِ، وَلاَ سَبِیْلَ اِلیٰ کَثْرَۃِ الْمُتَجَدِّدَاتِ مِنَ الْحِلِّ، فَلِذٰلِکَ یَحُثُّ عَلیَ الزِّنَا، فَبَیْنَ الزِّنَا وَالْغَنَائِ تَنَاسُبٌ مِنْ جِہَۃِ اَنَّ الْغَنَائَ لَذَّۃُ الرُّوْحِ، وَالزِّنَا اَکْبَرُ لَذَّاتِ النَّفْسِ، وَلِہٰذَا جَائَ فِیْ الْحَدِیْثِ: ’’اَلْغَنَائُ رُقْیَۃٌ الزِّنَا‘‘۔ (تلبیس ابلیس ۲۲۲) ترجمہ: گانا سننے میں دو خرابیاں جمع ہیں : (۱) گانا خدا کی عظمت میں غور وفکر اور اس کے حقوق کی ادائیگی سے غافل کردیتا ہے (۲) گانا انسان کو دنیا کی فوری لذتوں کی طرف مائل کردیتا ہے، جو اس کو تمام مادی شہوتوں کو پورا کرنے پر مجبور کرتے ہیں ، ان شہوتوں میں سب سے نمایاں جنسی شہوت ہے، جس کی پوری آسودگی اور نئے نئے تعلقات کے لئے جائز حدود میں کوئی گنجائش نہیں ہے، اس طرح موسیقی انسان کو زنا پر ابھارتی ہے، گانے اور زنا کے درمیان ایک طرح کی مناسبت ہے، کہ گانا روح کی اور زنا نفس کی ایک بڑی لذت ہے، اسی لئے حدیث میں آیا ہے کہ: ’’گانا انسان کو زنا کی طرف لے جانے میں جادو کی طرح زود اثر ہے‘‘۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں : ’’فواحش میں موسیقی بھی ہے جو زنا کا سب سے بڑا محرک ہے، انسان جب تک اس