اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
پارسا تھی، مگر اس کی شادی نہ ہوئی تھی، وہ دن بھر روزہ رکھتی اور رات بھر نوافل میں گزار دیتی، اہل علاقہ کی عورتیں اس کی بہت مداح تھیں ، اس سید زادی سے دعائیں کرواتی تھیں ، اس کی خدمت میں نذرانے پیش کیا کرتی تھیں ۔ ایک دفعہ وہ سید زادی اتنی بیمار ہوئی کہ حالت نازک ہوگئی،اہل محلہ کی نوجوان لڑکیاں اس کی خدمت کے لئے اس کے گھر اکٹھی ہوگئیں ، بات چیت چل نکلی تو کسی نے کہا کہ آپ ہمیں وصیت کریں جو زندگی بھر کام آئے۔ سید زادی نے فرمایا کہ ہاں میں تمہیں زندگی کی بہترین نصیحت کرتی ہوں ، وہ یہ ہے کہ جب بھی تمہارا مناسب رشتہ آجائے تو تم شادی کروانے میں ہرگز ہرگز دیر نہ کرنا۔ یہ سن کر لڑکیاں بہت حیران ہوئیں ، ایک نے پوچھا کہ آپ نے خود تو شادی کروائی نہیں ، ہمیں جلدی کروانے کی نصیحت کررہی ہیں ۔ وہ فرمانے لگیں کہ میں اپنے دل کا حال آپ لوگوں کے سامنے کیسے کھولوں ؟ میری شادی میں تاخیر ہوگئی، تو میرا نفس مجھے جنسی تقاضا پورا کرنے کے لئے اکساتا تھا، میرا دل نہ نماز میں لگتا تھا، نہ تلاوت میں لگتا تھا، میں دن میں روزہ رکھتی اور رات میں شب بیداری کرتی تھی، اس کے باوجود شہوت کے مارے میرا برا حال ہوتا تھا، اگر میں رات کو قرآنِ کریم کی تلاوت کررہی ہوتی اور گلی میں سے بوڑھا چوکی دار آواز لگاتے گزرتا تو میرا جی چاہتا کہ میں اس بوڑھے کو اپنے پاس بلالوں اور اپنی جنسی خواہش پوری کروں ۔ کئی مرتبہ میں نے اٹھ کر دروازہ کھولنا چاہا، مگر بدنامی کے ڈر سے سہم گئی کہ ساری زندگی کی بنی بنائی عزت خاک میں مل جائے گی، لوگ باتیں کریں گے کہ سید زادی ہوکر اس نے ایسا کام کیا، میں تڑپ تڑپ کر رات گزارتی، کسی کروٹ چین نہ آتا، میں اس عذاب کو بھگت چکی ہوں ؛ لہٰذا میں چاہتی ہوں کہ تمہیں کوئی پریشانی نہ اٹھانی پڑے۔ نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے سچ فرمایا ہے کہ جب لڑکی کے جوڑ کا خاوند مل جائے تو اس کی شادی کردو، رہی جہیز کی بات تو وہ رسم ورواج کے سوا کچھ نہیں ہے۔ (ملاحظہ ہو: حیا اور پاک دامنی، از: پیر ذوالفقار نقشبندی ۲۳۴)