اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
ہے، وہ مردوں سے لگاوٹ کے ساتھ نہیں فاصلے سے ہم کلام ہوتی ہیں اور ان کا لہجہ حوصلہ شکن ہوتا ہے نہ کہ حوصلہ افزا‘‘۔ (تفسیر ابن کثیر ۳؍۴۸۲) یہ قرآنی حکم براہِ راست تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج مطہرات کو ہے، مگر اس کے مخاطب سبھی مسلمان ہیں ، جب ازواج الرسول ا عفت وپاکیزگی میں ضرب المثل ہونے کے باوجود اس حکم کی مکلف ہیں تو دیگر خواتین -جن میں بلاشبہ ازواج الرسول کی بہ نسبت عفت وپاکیزگی بہت کم ہے- کو یہ حکم اور زیادہ اہمیت اور اولیت کے ساتھ ہے۔ سید قطب شہید نے اپنی تفسیر میں اس آیت کے ذیل میں قدرے تفصیل سے لکھا ہے جس کا خلاصہ ہم اپنے لفظوں میں لکھ رہے ہیں : ’’قرآن کریم عورتوں کو صراحت کے ساتھ حکم دے رہا ہے کہ ان کے الفاظ، لہجہ، انداز گفتگو کسی چیز میں ایسا لوچ اور نزاکت نہ ہو جو مردوں کی شہوت برانگیختہ کرے، اور عورتوں کی طرف ان کی رغبت بڑھائے، اللہ مرد وعورت سب کا خالق ہے، اسے خوب معلوم ہے کہ عورت کی لوچ دار آواز اور گفتگو کس کس طرح قہر ڈھاتی اور بجلیاں گراتی ہے۔ دوسری طرف شہوت کے روگی ہر دور میں رہتے ہیں ، ہر ماحول میں رہتے ہیں ، حتی کہ عہد نبوت میں ازواج الرسول کو یہ حکم دیا گیا، تو موجودہ سماج جس میں ہم رہ رہے ہیں ، یہ تو فتنوں اور لعنتوں کا سماج ہے، اور پوری فضا میں جنسی بے راہ روی کے مسموم اثرات پھیلے ہوئے ہیں ، عورتوں نے لوچ اور نزاکت کے ساتھ گفتگو کرنے کو شعار بنالیا ہے، ایسے ماحول میں اس قرآنی حکم کی اہمیت اور اس پر عمل کی ضرورت کس قدر بڑھ جاتی ہے۔ قرآن مرد وعورت کے آزادانہ اختلاط کا ہر شگاف پاٹنا چاہتا ہے، اسی لئے لوچ، نزاکت، با معنی اشارات سب پر روک لگادی گئی ہے‘‘۔ (ملاحظہ ہو: فی ظلال القرآن ۵؍۸۵۹) تفسیر عثمانی میں مرقوم ہے: ’’بلاشبہ عورت کی آواز میں قدرت نے طبعی طور پر ایک نرمی اورنزاکت رکھی ہے؛ لیکن پاک باز عورتوں کی شان یہ ہونی چاہئے کہ حتی المقدور غیر مردوں سے بات کرنے میں