اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
ترجمہ: جب عورت مسجد جانے کے لئے نکلے اور خوشبو لگا رکھی ہو تو غسل جنابت کی طرح (اہتمام کے ساتھ) غسل کرے۔ امام ابن القیمؒ نے لکھا ہے کہ: ’’عورت کو باہر نکلتے یا مسجد جاتے وقت خوشبو لگاکر باہر آنے سے سختی سے روکا گیا ہے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ مردوں کے میلان کا ذریعہ ہے، عورت کی خوشبو، زینت اور زیورات کی آواز مردوں کو دعوتِ نظارہ دیتی ہے؛ اسی لئے عورت کو خوشبو اور زینت اور بجنے والے زیوروں کے بغیر باہر نکلنے کی تاکید کی گئی ہے‘‘۔ (اعلام الموقعین ۳؍۱۴۹) روایات میں آتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ ص کی ایک عورت سے سرراہ ملاقات ہوگئی، جس سے خوشبو پھوٹ رہی تھی، دریافت فرمایا: مسجد سے آرہی ہو؟ اس نے جواب دیا ہاں ، فرمایا: خوشبو لگا رکھی ہے، جواب ملا ہاں ، فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو میں نے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو عورت خوشبو لگاکر مسجد میں آتی ہے اللہ اس کی نماز قبول نہیں فرماتا۔ چناں چہ وہ عورت واپس ہوئی اور اپنے کپڑوں کو اچھی طرح دھویا۔ (ابن کثیر ۳؍۲۸۶) ایک روایت میں وارد ہوا ہے: اَیُّمَا اِمْرَأَۃٍ اَصَابَتْ بَخُوْراً فَلاَ تَشْہَدْ مَعَنَا الْعِشَائَ الاٰخِرَۃَ۔ (مسلم: کتاب الصلاۃ، باب خروج النساء الی المسجد) ترجمہ: جو عورت خوشبو لگائے ہوئے ہو وہ عشاء کی نماز میں ہمارے ساتھ شریک نہ ہو۔ اس حدیث میں عشاء کی تخصیص کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ رات میں فتنے زیادہ ہوتے ہیں ، اور ہوس کے پجاریوں کے لئے عورت کی خوشبو دن کے بالمقابل رات میں کہیں زیادہ ہیجان انگیز اور زنا کی داعی ثابت ہوتی ہے، اسی لئے عشاء کی تخصیص کردی گئی، ورنہ حکم ہر وقت کے لئے عام ہے اور یہی ہے کہ عورت خوشبو لگاکر باہر نہ نکلے۔ تفسیر کبیر میں ہے کہ انسانی فطرت ہے کہ جب مرد عورت کی پازیب کی آواز سنتا ہے تو