اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
گراں ہے، وہ ایک مسلمان عورت کو اس کی اجازت نہیں دیتی کہ خوشبو میں بسے ہوئے کپڑے پہن کر راستوں سے گذرے یا محفلوں میں شرکت کرے؛ کیوں کہ اس کا حسن اور اس کی زینت پوشیدہ بھی رہی تو کیا فائدہ ہوا؟ اس کی عطریات تو فضا میں پھیل کر جذبات کو متحرک کررہی ہیں ‘‘۔ (پردہ ۱۹۱) ذخیرۂ احادیث میں ایسی متعدد احادیث ہیں جن میں صراحۃً اس کا ذکر آیا ہے، حضرت ابوموسیٰ اشعری ص آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں : اَیُّمَا اِمْرَأۃٍ اِسْتَعْطَرَتْ فَمَرَّتْ عَلیٰ قَوْمٍ لِیَجِدُوْا مِنْ رِیْحِہَا فَہِیَ زَانِیَۃٌ۔ (نسائی: کتاب الزینۃ، باب ما یکرہ للنساء من الطیب) ترجمہ: جو عورت عطر لگاکر لوگوں کے درمیان سے گذرتی ہے؛ تاکہ لوگ اس کی خوشبو سے لطف اندوز ہوں وہ آوارہ اور بدکار عورت ہے۔ عطر لگاکر گذرنے والی عورت کو بدکار کہا گیا ہے؛ اس لئے کہ وہ مردوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرتی ہے، اس کی یہ حرکت ہیجان انگیز ثابت ہوتی ہے، اور کم سے کم وہ نگاہ کے زنا کا سبب تو ضرور بنتی ہے۔ ایک حدیث میں مزید وضاحت ہے: کُلُّ عَیْنٍ زَانِیَۃٌ، وَالْمَرْأَۃُ اِذَا اسْتَعْطَرَتْ فَمَرَّتْ بِالْمَجْلِسِ فَہِیَ کَذَا وَکَذَا یَعْنِیْ زَانِیَۃً۔ (تفسیر ابن کثیر ۳؍۲۸۶ بحوالہ ترمذی شریف) ترجمہ: ہر آنکھ زناکار ہے، اور عورت جب خوشبو لگاکر مجلس سے گذرتی ہے تو وہ بدکار ہے۔ جو عورت مسجد میں نماز ادا کرنے جانا چاہے اور اس نے خوشبو لگارکھی ہے اسے شرعی حکم یہ دیا گیا ہے کہ اپنا جسم ولباس دھوئے؛ تاآں کہ عطر کا اثر ختم ہوجائے۔ ارشاد نبوی ہے: اِذَا خَرَجَتِ الْمَرْأَۃُ اِلیَ الْمَسْجِدِ فَلِتَغْتَسِلْ مِنَ الطِّیْبِ کَمَا تَغْتَسِلُ مِنَ الْجَنَابَۃِ۔ (نسائی: باب اغتسال المرأۃ من الطیب)