اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
جس میں ان کے صنفی رجحانات بیدار ومشتعل ہوں ، باشعور ہونے کے بعد خصوصاً مراہقت کے مرحلہ میں اس احتیاط کی ضرورت بہت بڑھ جاتی ہے، فتنے کی پہلے سے پیش بندی ضروری ہے، باشعور بچوں کا بستر الگ نہ کرنا ان کے لئے فساد کا در کھولنا اور بدچلنی کی راہ ہموار کرنا ہے۔ علامہ ابن القیمؒ نے لکھا ہے: ’’آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے باشعور بچوں اور بچیوں کا بستر الگ رکھنے کا تاکیدی حکم فرمایا ہے، اور تاکید کی ہے کہ دونوں ایک بستر پر نہ سونے پائیں ؛ اس لئے کہ بستر ایک ہو تو عموماً شیطان ناجائز تعلق قائم کرنے پر آمادہ کرتا ہے اور پھر اس کا انجام بہت برا سامنے آتا ہے‘‘۔ (اعلام الموقعین ۳؍۱۵۰) ایک عرب مصنف نے لکھا ہے: ’’مرد وزن کے اختلاط کی مختلف صورتیں ہیں اور سب پر شرع نے بندش لگادی ہے: (۱) باشعور بچوں اور بچیوں کا بستر ایک ہونا منع ہے۔ (۲) مردوں کے لئے خادمائیں متعین ہوں یہ بھی حرام ہے۔ (۳) منگیتر کے ساتھ خلوت میں ملاقات ممنوع ہے۔ (۴) عورت شوہر کی عدم موجودگی میں اس کے دوستوں یا دور کے اعزہ کا استقبال کرے اور ان کے ساتھ ہم نشینی کرے اس سے روکا گیا ہے۔ (۵) تعلیم گاہوں میں اختلاط ہو یہ بھی حرام ہے۔ (۶) ملازمت میں ، تقریبات میں اور تفریح گاہوں میں بھی اختلاط ممنوع ہے‘‘۔ (عودۃ الحجاب دکتور المقدم ۵۶) حاصل یہ ہے کہ جس راہ سے بھی صنفی میلانات کے اشتعال کا امکان ہو اس پر اسلام نے بند لگایا ہے، اور اس طرح تحفظ عصمت وعفت کو ہدفِ اصلی قرار دیا ہے۔ غایت احتیاط یہ ہے کہ بلاضرورت عورت کے لئے مرد ڈاکٹر سے رابطے پر بھی روک ہے، اور اگر لیڈی ڈاکٹر نہ ہو یا مجبوری ہو تو پردے کی تمام نزاکتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے مرد ڈاکٹر سے رجوع کی اجازت ہے۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ ایک مرتبہ ایسا معاملہ پیش آیا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی موجودگی میں حضرت ابوطیبہ ص کو ان کا علاج کرنے کا حکم دیا، گویا مرد ڈاکٹر اور مریض خاتون کی ملاقات خلوت میں نہ ہونی چاہئے؛ بلکہ محرم کی موجودگی میں تشخیص