اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
طرف دیکھا، اس کے حسن وجمال کی خوب تعریف کی اور انتہائی فحش باتیں اپنی گستاخی سے وحی کے نام پر سنائیں ۔ اس شرم ناک اور شہوت انگیز ابلیسی کلام کو سن کر سجاح کے اندر شہوت بیدار ہوگئی، اس کی آنکھوں میں سرخ ڈورے نظر آنے لکے، مسیلمہ بہت چالاک اور عیار تھا، عورت کی نفسیات جانتا تھا، کہنے لگا سنو! خدائے بزرگ وبرتر نے نصف زمین مجھے دی اور نصف قریش کو دی، مگر قریش نے ناانصافی کی؛ لہٰذا میں نے قریش کا نصف حصہ تمہیں دے دیا ہے۔ میں بڑے خلوص سے مشورہ دیتا ہوں کہ اگر ہماری فوجیں مل جائیں تو ہم سارے عرب پر قبضہ کرلیں گے، تم عرب کی ملکہ کہلاؤ گی، تمہاری فوج کی دیکھ بھال کا کام میں کروں گا، ہم آپس میں نکاح کرلیتے ہیں ، ہماری نبوت بھی خوب چمکے گی، سجاح پر مسیلمہ کا جادو چل چکا تھا وہ بولی مجھے آپ کا مشورہ قبول ہے۔ یہ سن کر مسیلمہ مسکرایا اور کہنے لگا: ہاں مجھے بھی ایسا ہی کرنے کا حکم ملا ہے، الغرض ’’میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی‘‘ کے مصداق دونوں نے بغیر کسی گواہ کے خود ہی نکاح کرلیا اور شب زفاف منانی شروع کردی، تنہائی میں غیر مرد کے ساتھ گفتگو کرنے کا منطقی انجام یہی ہوتا ہے۔ خیمے سے باہر دونوں مدعیانِ نبوت کے پیروکار یہ گمان کررہے تھے کہ خیمے کے اندر ہر مسئلہ پر بہت کچھ رد وقدح ہورہی ہوگی، بحث واختلاف کی محفل اپنے عروج پر ہوگی، لوگ انجام ملاقات معلوم کرنے کے لئے چشم براہ اور گوش بر آواز بنے ہوئے تھے، جب کہ خیمہ کے اندر دولہا اور دلہن بساط عیش پر نوجوانی کے مزے لوٹ رہے تھے، شوق وصال کا یہ عالم تھا کہ تین دن تک خیمے سے باہر نہ نکلے، مسیلمہ نے جی بھرکر سجاح سے حظ نفسانی اٹھایا اور ارمان بھرے دل کی آرزوئیں پوری کیں ۔