اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
کرکے رسوا کرے۔ ہمارے زمانہ میں عورتوں اور مردوں کی بے باکانہ وبے حجابانہ ملاقات نے زنا کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ حضور اکرم اکی غایت احتیاط کا عالم یہ تھا کہ ایک بار حالت اعتکاف میں رات کے وقت ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ملاقات کے لئے مسجد آئیں ، بات چیت کے بعد واپس آنے لگیں ، گھر تک پہنچانے کے لئے حضور ا بھی ساتھ اٹھے، اسی درمیان دو انصاری صحابہ گذرے اور آپ کو حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ دیکھ کر اور جلدی چلنے لگے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اطمینان سے جاؤ، یہ میرے ساتھ صفیہ ہیں ، اس پر ان دونوں نے کہا: ’’سبحان اللہ یا رسول اللہ کیا آپ کے متعلق بھی بدگمانی ہوسکتی ہے‘‘؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اِنَّ الشَّیْطَانَ یَجْرِیْ مِنْ ابْنِ اٰدَمَ مَجْرَی الدَّمِ، وَاِنِّیْ خَشِیْتُ اَنْ یَقْذِفَ فِیْ قُلُوْبِکُمَا شَراًّ۔ (متفق علیہ) ترجمہ: شیطان انسان کے جسم میں خون کی طرح دوڑتا پھرتا ہے، میں ڈرتا ہوں کہ وہ کہیں تم دونوں کے دل میں کوئی بری بات نہ ڈال دے۔ اہل علم کے بقول انسان انتہائی خدا ترس کیوں نہ ہو، اجنبی عورت کے ساتھ خلوت اسے گناہ میں مبتلا ضرور کرتی ہے، اور بالآخر رسوا کرڈالتی ہے، اسی لئے قرآن اور دین سکھانے کے مقصد سے بھی کسی عورت کے ساتھ تنہائی اختیار کرنا حرام ہے، اجنبی عورت کے ساتھ تنہائی میں رہنے کے اندر کتنی تباہ کاریاں چھپی ہوئی ہیں ، اس کا اندازہ اس عبرت آموز واقعہ سے ہوتا ہے جو امام ابن جوزیؒ نے اپنی کتاب ’’تلبیس ابلیس‘‘ میں وہب بن منبہ کے حوالہ سے لکھا ہے، اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ زنا کے مضمرات کتنے خطرناک اور وحشت ناک ہیں ، اور یہ کہ ابلیس اپنی دسیسہ کاریوں سے انسان کو کس طرح کھلونا بناتا ہے: اِنَّ عَابِداً کَانَ فِیْ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ وَکَانَ مِنْ اَعْبَدِ اَہْلِ زَمَانِہٖ،