اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
حضرت حسان بن ابی سنانؒ کے بارے میں منقول ہے کہ ایک بار عید کے موقع پر نما ز سے فراغت کے بعد ان کے احباب نے یہ شکوہ کیا کہ اس بار عید میں خواتین کا مجمع بہت زیادہ تھا، یہ نامناسب معلوم ہوتا ہے، اس پر انہوں نے فرمایا کہ میری نگاہ تو آج کسی عورت پر نہیں پڑی، یہ ان کی غایت احتیاط اور عفت مآبی کی علامت تھی۔ مشہور زاہد حضرت داؤد بن عبد اللہ بصرہ آئے، اپنے ایک دوست کے گھر مقیم ہوئے، دوست کی بیوی ’’زرقاء‘‘ نامی بڑی حسین وجمیل خاتون تھی، دوست کسی ضرورت سے سفر پر جانے لگا، تو بیوی کو مہمان کا خاص خیال رکھنے کی تاکید کرگیا، کئی روز کے بعد واپس آیا، تو حضرت داؤد سے پوچھا: زرقاء نے آپ کا خیال رکھا؟ حضرت داؤد نے پوچھا: کون زرقاء؟ وہ بولا: میری بیوی، حضرت داؤد نے فرمایا: نہ میں نے اسے دیکھا، نہ جانتا ہوں ، اس نے اپنی بیوی کو ڈانٹ ڈپٹ کی کہ تم نے مہمان کا خیال کیوں نہیں رکھا؟ بیوی بولی: وہ تو نابینا ہے، نگاہ اٹھاکر دیکھتا ہی نہیں ہے۔ (ذم الہویٰ ۷۷) امام محمد بن سیرین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’میں نے نیند اور بیداری دونوں حالتوں میں کبھی اپنی بیوی کے سوا کسی کے قریب ہونا گوارا نہیں کیا، خواب میں بھی اگر کوئی خاتون نظر آتی ہے تو اسے حرام سمجھ کر نگاہ پست کرلیتا ہوں ‘‘۔ (الشکویٰ للثعالبی ۱۰۳) حضرت عبید بن عمیر مکہ کے مشہور واعظ وخطیب اور تابعی جلیل ہیں ، ان کے دور میں مکہ کی ایک انتہائی حسین وجمیل خاتون تھی، اُسے اپنے حسن پر بے حد ناز تھا، ایک بار اس نے اپنے شوہر سے کہا: ہے کوئی جو میرے حسن کا اسیر نہ ہو؟ شوہر بولا: ہاں ، عبید بن عمیر تمہارے حسن کے کبھی اسیر نہیں ہوں گے، اس نے کہا: میں اپنا وار ان پر آزماکر دیکھوں ؟ شوہر بولا: ٹھیک ہے، وہ خاتون مسئلہ پوچھنے کے بہانے سے مسجد حرام میں آتی ہے، اشارے سے حضرت عبید کو ایک کنارے لے جاتی ہے، اپنا چہرہ کھول دیتی ہے، حضرت عبید فرماتے ہیں :