اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
کے حصول کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے، انسان کی فلاح کے نسخے انسان کے خالق سے زیادہ کون جان سکتا ہے؟ قرآنِ کریم میں حکم ہوا: قُلْ لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ أَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ، ذٰلِکَ اَزْکیٰ لَہُمْ، اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا یَصْنَعُوْنَ۔ (النور: ۳۰) ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہل ایمان سے فرمادیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں پست رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں ، اسی میں ان کی پاکیزگی ہے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’میں نے اس آیت میں بے حد غوروفکر کیا، یہ آیت الفاظ کے لحاظ سے مختصر ضرور ہے؛ لیکن معانی اور معارف وحقائق کی ایک دنیا اس میں مخفی ہے، آیت کا پہلا ٹکڑا ’’تادیب‘‘ (ادب سکھانے) کے مضمون کو محیط ہے، جس میں پست نگاہی اور عفت مآبی کا واضح حکم ہے، دوسرا ٹکڑا ’’تنبیہ‘‘ (آگاہ وخبردار کرنے) کے معنی لئے ہوئے ہے، جس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ قلب کی پاکیزگی اور اطاعت کی برکت پست نگاہی اور عفت سے ہی وابستہ ہے۔ تیسرا ٹکڑا ’’تہدید‘‘ (دھمکانے اور ڈرانے) کا پہلو رکھتا ہے، جس میں اللہ انسانوں کو اپنے حکم کی تعمیل پر متوجہ کرنے کے لئے اپنی شان خبیری وعلیمی کا ذکر کرتا اور حکم عدولی سے ڈراتا ہے‘‘۔ (ملاحظہ ہو: منہاج العابدین للغزالیؒ۳۱) (۵) بدنگاہی اور شہوانیت کی غلاظتوں سے لَت پَت اِس ماحول میں ہمارے لئے اپنے انہیں اسلاف کا کردار مشعل راہ، نمونۂ عمل اور اسوہ ہے، جنہوں نے اپنے نفس پر قابو یاب ہوکر تمام تر مجاہدات کے ساتھ اپنی نگاہوں کی حفاظت فرمائی، اور اس کے صلہ میں دنیوی اور اخروی تمام سعادتوں سے بہرہ ور ہوئے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جلیل القدر شاگرد حضرت ربیع بن خیثمؒ کے متعلق آتا ہے کہ اپنی نگاہ ہمہ وقت اس قدر پست رکھتے تھے کہ پاس سے گذرنے والی خواتین انہیں نابینا سمجھ کر چلی جاتی تھیں ۔