اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
خدا کی بندی: خدا سے ڈر، وہ عورت انہیں دعوتِ زنا دیتی ہے، حضرت عبید کہتے ہیں : پہلے تم میرے چند سوالوں کا جواب دے دو: (۱) اگر ملک الموت تمہاری روح قبض کرنے آجائے تو کیا اس وقت تم یہ پسند کروگی کہ میں تم سے زنا کروں ؟ وہ عورت بولی: نہیں ۔ (۲) تمہیں قبر میں دفن کردیا جائے، منکر نکیر سوال کررہے ہوں ، تو کیا تمہیں اس وقت زنا کا عمل گوارا ہوگا؟ وہ بولی: بالکل نہیں ۔ (۳) میدانِ محشر ہو، نفسی نفسی کا عالم ہو، اعمال نامے ملنے والے ہوں ، تمہیں پتہ نہ ہو کہ اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں ملے گا یا بائیں میں ، کیا اس وقت تم کو بدکاری اچھی لگے گی؟ وہ بولی: ہرگز نہیں ۔ (۴) میدانِ محشر میں موقف حساب میں اللہ تم سے اعمال کا حساب لے رہا ہو، کیا اس وقت تم بدکاری کا موقع دے سکوگی؟ وہ بولی: خدا کی قسم، کبھی نہیں ۔ وہ عورت اتنا سن کر رونے لگی اور تائب ہوگئی،اور پھر اس کی زندگی میں پاکیزہ انقلاب آگیا۔ (ذم الہویٰ ۲۱۰-۲۱۱) حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ بدنگاہوں سے فرمایا کرتے تھے: اے نگاہوں کو آزاد رکھنے والے! اگر تمہیں بدنگاہی کے جرم کی شناعت اور قباحت معلوم ہوجائے تو تم آنکھوں کی جگہ آگ کے انگارے رکھنا گوارا کرلوگے، مگر بدنگاہی گوارا نہ کروگے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کا یہ فرمانِ عالی بے حیائی کے ماحول میں جی رہے لوگوں کے لئے عبرتوں کا بہت بڑا سامان ہے، اور پیغام دے رہا ہے کہ نگاہ کی حفاظت کے بغیر نہ رحمت الٰہی کا مورد بنا جاسکتا ہے، اور نہ ایمان سلامت رکھا جاسکتا ہے، کاش! ہم اس پر غور کرسکیں اور انقلابِ حال کا عزم کرسکیں ۔ ،l،