اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
قلبی اور فراست ایمانی اُسے گناہوں کی غلاظتوں اور خطرات سے آگاہ وباخبر کرتی اور معصیت کی وادیوں سے محفوظ رکھتی ہے‘‘۔ (اغاثۃ اللہفان ۶۰) ہماری تاریخ میں اس کی سب سے نمایاں مثال ذوالنورین حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شخصیت گرامی ہے، جماعت صحابہ میں عفت وحیا کے لحاظ سے ان کا مقام سب سے بلند ہے، ان کی حیا، نگاہ کی حفاظت، پاکیزہ کرداری اور عفت مآبی کی وجہ سے اللہ نے ان کو بصیرتِ باطن اور فراست ایمانی کی وہ نعمت بخشی تھی، جو بے نظیر وبے مثال تھی۔ روایات میں آتا ہے کہ ایک بار ان کی خدمت میں ایک صاحب آئے، حضرت عثمانؓ کی فراست نے انہیں باخبر کردیا کہ یہ صاحب بدنگاہی کے مریض ہیں ،آپ نے فرمایا: ’’میرے پاس تم میں سے کوئی آتا ہے جب کہ اس کی آنکھیں اس کے زنا کی شہادت دیتی ہیں ‘‘، اس پر وہ صاحب بولے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی وحی کا سلسلہ جاری ہے؟ حضرت عثمان غنیؓ نے فرمایا: نہیں ، یہ وحی نہیں ، سچی فراست ہے۔ (الطرق الحکمیۃ لابن القیم ۴۳) (۳) ہمہ وقت بہکانے والے شیطان سے دل کی حفاظت کی جائے تبھی انسان پاکیزہ کردار رہ سکتا ہے، قلب انسانی کی مثال گھر کی سی ہے، اور نگاہ اس گھر کے دورازے کا حکم رکھتی ہے، چور گھر میں اسی وقت آتا ہے جب دروازہ کھلا ہوا رہے، اگر نگاہ آوارہ، آزاد اور بے لگام رہے گی تو دل کا گھر شیطانی اور شہوانی اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکے گا، ایمان کا نور اور تقویٰ کا جوہر دونوں ختم ہوجائے گا، اسی لئے احادیث میں نگاہ کی حفاظت پر بے حد زور دیا گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اچانک پڑجانے والی نگاہ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اِصْرِفْ بَصَرَکَ۔ (مسلم شریف) ترجمہ: اپنی نگاہ کی بہرصورت حفاظت کرتے رہو۔ (۴) نگاہ کی حفاظت کا نقد فائدہ اطاعت الٰہی اور اتباعِ سنت کی برکات اور لذتوں