اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
اپنی نگاہ کی حفاظت کرلے جائے، اور بدنگاہی میں مبتلا ہونے سے اپنے کو بچالے جائے۔ قرآنِ کریم میں : {وَخُلِقَ الإِنْسَانُ ضَعِیْفًا} (انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے) کے ذریعہ انسان کے ضعف وعجز کو بیان کیا گیا ہے۔ حضرت سفیانِ ثوریؒ کے بقول انسان کی کمزوری کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ کوئی خاتون مرد کے پاس سے گذرے اور مرد اپنی نگاہ اور جذبات کی حفاظت نہ کرسکے، شہوانیت اس پر غالب آجائے اور وہ بدنگاہی میں مبتلا ہوجائے۔ (ذم الہویٰ لابن الجوزی ۷۸) لیکن صاحب ایمان اگر ایمانی لحاظ سے صاحب استقامت بن جائے تو اس کے لئے بدنگاہی اور شہوانیت سے نجات مشکل نہیں رہتی، اسی لئے احادیث میں قوی مؤمن کو کمزور مؤمن سے افضل قرار دیا گیا ہے۔ (مسلم شریف) (۲) فراست ایمانی ایک بے بہا نعمت خداوندی ہے، خیروشر، حق وباطل، مناسب ونامناسب کے درمیان امتیاز کا عمل ایمانی فراست ہی کے ذریعہ انجام پاتا ہے، اور واقعہ یہ ہے کہ یہ دولت نگاہ کی حفاظت ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ علامہ ابن شجاع کرمانیؒ کا فرمان ہے: ’’جو مسلمان اپنے ظاہر میں سنتوں کا متبع اور اپنے باطن سے اللہ کو ہمہ وقت یاد رکھنے والا ہو، جو اپنی نگاہ حرام سے بچاتا رہے اور اپنے آپ کو شہوانیت سے محفوظ رکھے اور اکل حلال کا اہتمام کرے، اس کو ایمانی فراست کی وہ دولت مل جاتی ہے جو اس کو خطاؤں سے بچاتی رہتی ہے‘‘۔ (اغاثۃ اللہفان لابن القیم ۵۹) امام ابن القیمؒ نے حفاظت نگاہ کے نتیجے میں فراست کی نعمت ملنے کی حکمت پر اس طرح روشنی ڈالی ہے: ’’اس کا راز یہ ہے کہ اللہ کی سنت کے مطابق بدلہ عمل کی جنس سے ملتا ہے، اب جو بندہ اپنی نگاہ محرمات سے بچاتا ہے، اللہ اس کو اسی جنس سے بہترین جزا عطا فرماتے ہیں ، چوں کہ اس نے اپنی بصارت کا نور حرام سے بچاکر رکھا ہے، اس لئے اللہ اس کو بصیرت کا نور عطا کرتے ہیں ، چناں چہ اس کا دل آئینہ کی طرح شفاف کردیا جاتا ہے، اور اس کی بصیرتِ