اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
سننے والوں کو بڑا تعجب ہوا، ہم نے وہاں ہندوستان کے لوگوں سے کہا کہ آپ یہ نمونہ دکھائیں ، لوگوں کو یہ شوق پیدا ہو کہ یہ چیز کہاں سے آئی، یہ لوگ گھر چھوڑے ہوئے اتنے دنوں سے یہاں تعلیم حاصل کررہے ہیں ، کوئی بی اے میں پڑھ رہا ہے، کوئی بی ایس سی میں پڑھ رہا ہے، کوئی ایم ایس سی میں پڑھ رہا ہے، کسی کو چار برس ہوئے، کسی کو چھ برس ہوئے، اور یہاں بہت خرچ ہوتا ہے ہندوستان جانے میں اور ان میں سے اکثر کی شادی نہیں ہوئی، اور یہاں کی لیڈیز اپنی خوبصورتی میں مشہور ہیں ، ساری دنیا میں اور خود ہندوستان میں لوگ بڑی للچاتی ہوئی بڑے شوق کی نگاہوں سے ان کو دیکھتے تھے، یہاں کیوں نہیں دیکھتے؟ ان کے اندر یہ سوال پیدا ہو، اور پھر وہ سمجھیں کہ یہ اسلام کا فیض ہے، یہ اسلام کی تربیت کا فیض ہے‘‘۔ (ملاحظہ ہو: خطباتِ علی میاں ؒ ۱؍۱۴۲-۱۴۳) احادیث میں وارد ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: اِضْمَنُوْا لِیْ سِتاًّ اَضْمَنْ لَکُمُ الْجَنَّۃَ: اُصْدُقُوْا اِذَا حَدَّثْتُمْ، وَاَوْفُوْا اِذَا وَعَدتُّمْ، وَاَدُّوْا اِذَا اؤْتُمِنْتُمْ، وَاحْفَظُوْا فُرُوْجَکُمْ، وَغُضُّوْا اَبْصَارَکُمْ، وَکُفُّوْا اَیْدِیَکُمْ۔ (مسند احمد ۵؍۳۲۳) ترجمہ: تم مجھے چھ باتوں کی ضمانت دو میں تمہارے لئے جنت کی ضمانت لیتا ہوں ، جب بولو سچ بولو، جب وعدہ کرو وفا کرو، جب امانت رکھوائی جائے ادا کرو، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرو، اپنی نگاہیں پست رکھو، اپنے ہاتھ دوسروں کی ایذا رسانی سے روکے رکھو۔ حجۃ الوداع کے موقعہ پر دس ذی الحجہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت فضل بن عباس ص کو اپنی سواری پر پیچھے بٹھایا، حضرت فضل ص خوب صورت جوان تھے، خثعم کی ایک خاتون آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے کچھ دریافت کرنے آئیں ، ان کے حسن وجمال کو دیکھ کر حضرت فضل ص ان کی طرف متوجہ ہوگئے اور انہیں دیکھنے لگے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت فضل ص کا چہرہ دوسری طرف موڑدیا؛ تاکہ وہ اپنی نگاہ محفوظ رکھیں ۔ (مسلم، کتاب الحج حدیث: ۱۳۳۴)