اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
پڑھتا ہوں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم س آیت کو پڑھتے ہوئے اور اس آیت پر عمل کرتے ہوئے داخل ہوں ، اس وقت آپ نے یہ آیت تلاوت کی: قُلْ لِلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ ذٰلِکَ اَزْکیٰ لَہُمْ۔ (النور: ۳۰) ترجمہ: مؤمنوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں ، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں ، یہ ان کے لئے پاکیزگی کا راستہ ہے۔ چناں چہ لشکر قلعے کے اندر اس شان سے داخل ہوا کہ ان کی نگاہیں نیچی تھیں اور اسی حالت میں پورے بازار سے گزرگئے اور شاہی محل تک پہنچ گئے اور کسی نے دائیں بائیں آنکھ اٹھاکر نہیں دیکھا کہ کیا فتنہ ان دکانوں میں ان کا انتظار کررہا ہے۔ جب شہر والوں نے یہ منظر دیکھا تو آپس میں کہنے لگے کہ یہ کونسی مخلوق ہے اس لئے کہ کوئی فوج فاتح بن کر کسی شہر میں داخل ہوتی ہے تو سینہ تان کر داخل ہوتی ہے، آزادی کے ماحول میں داخل ہوتی ہے اور لوٹ مار کرتی ہے اور عصمتیں لوٹتی ہے؛ لیکن یہ عجیب وغریب لشکر اس شان سے داخل ہوا کہ چوں کہ ان کے امیر نے کہہ دیا تھا کہ نگاہیں نیچی رکھنا تو سب کی نگاہیں نیچی تھیں اور اس حالت میں پورا لشکر اس بازار کو پار کرگیا اور شہر کے بے شمار لوگ صرف یہ منظر دیکھ کر مسلمان ہوگئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو اسلام کی توفیق عطا فرمادی۔ (ملاحظہ ہو ’’اصلاحی خطبات‘‘ از: حضرت مولانا محمد تقی عثمانی ۱۵؍۱۴۱-۱۴۳) حضرت امام ابوحنیفہؒ کا کردار بھی ملاحظہ ہو: خارجہ بن مصعبؒ فرماتے ہیں کہ میں حج کو جانے لگا تو اپنی باندی امام ابوحنیفہؒ کے پاس چھوڑ گیا، مکہ مکرمہ میں تقریباً چار مہینہ رہا، واپس آیا تو میں نے امام ابوحنیفہؒ سے پوچھا کہ آپ نے اس باندی کی خدمت گذاری اور اخلاق کو کیسا پایا؟ آپ نے فرمایا: جس نے قرآنِ پاک پڑھا اور وہ لوگوں کے دین کی حفاظت میں لگ گیا، حلال وحرام بتلانے لگا وہ