دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
یعنی تورات وانجیل میں نبی آخر الزمان کی واضح صفات وعلامات بتلادینے کا نتیجہ یہ ہے کہ جو لوگ آپ پر ایمان لائیں ، اور آپ کی تعظیم کریں اور مدد کریں ، اور اس نور کا اتباع کریں جو آپ کے ساتھ بھیجا گیا ہے، یعنی قرآن عظیم تو یہی لوگ ہیں فلاح پانے والے۔ یہاں فلاح پانے کے لیے چار شرطیں ذکر کی گئی ہیں ، اول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان دوسرے آپ کی تعظیم وتکریم، تیسرے آپ کی امداد، چوتھے قرآن کریم کا اتباع۔ تعظیم و تکریم کے لیے اس جگہ لفظ عَزَّرُوْہُ لایا گیا ہے جو تعزیر سے مشتق ہے، تعزیر کے اصلی معنی شفقت کے ساتھ منع کرنے ، حفاظت کرنے کے ہیں ، حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے عَزَّرُوْہُ کے معنی تعظیم و تکریم کرنے کے بتلائے ہیں ، اور مبرّد نے کہا کہ اعلیٰ درجہ کی تعظیم کو تعزیر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ وہ لوگ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت کے ساتھ آپ کی تائید و حمایت اور مخالفین کے مقابلہ میں آپ کی مدد کریں وہ مکمل فلاح پانے والے ہیں ،زمانہ نبوت میں تو یہ تائید و نصرت آپ کی ذات کے ساتھ متعلق تھی اور آپ کی وفات کے بعد آپ کی شریعت اور آپ کے دین کی تائید و نصرت ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید و نصرت کا مصداق ہے۔ قرآن کریم کو اس آیت میں نور سے تعبیر کیا گیا ہے، وجہ یہ ہے کہ جس طرح نور کے نور ہونے پر کسی دلیل کی ضرورت نہیں ، نور خود اپنے وجود کی دلیل ہوتا ہے، اسی طرح قرآن کریم خود اپنے کلام ربانی اور کلام حق ہونے کی دلیل ہے کہ ایک امی شخص کی زبان سے ایسا اعلیٰ وابلغ کلام آیا جس کی مثال لانے سے ساری دنیا عاجز ہوگئی، یہ خود قرآن کریم کے کلام اللہ ہونے کی دلیل ہے۔