دین و شریعت کی بنیادیں اور فقہی اصول و ضابطے ۔ قرآن کی روشنی میں |
|
طرز پر سلام کرے تو بغیر تحقیق کے یہ نہ سمجھو کہ اس نے فریب کی وجہ سے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کیا ہے، اور اس کے مال کو مال غنیمت سمجھ کر حاصل نہ کرو۔ (ابن کثیر) اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے ایک دوسری روایت ہے جس کو بخاری نے مختصراً اور بزار نے مفصلاً نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دستہ مجاہدین کا بھیجا تھا جن میں حضرت مقداد بن اسود بھی تھے، جب وہ موقع پر پہنچے تو سب لوگ بھاگ گئے صرف ایک شخص رہ گیا جس کے پاس بہت مال تھا، اس نے صحابہ کرام کے سامنے ’’اشہد ان لا الہ الا اﷲ‘‘ کہا مگر حضرت مقدادؓ نے یہ سمجھ کر کہ دل سے نہیں کہا محض جان و مال بچانے کے لیے کلمۂ اسلام پڑھ رہا ہے، اس کو قتل کردیا، حاضرین میں سے ایک صحابی نے کہا کہ آپ نے برا کیا کہ ایک ایسے شخص کو قتل کردیا، جس نے لا الہ الا اللہ کی شہادت دی تھی، میں اگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگیا تو اس واقعہ کا ضرور ذکر کروں گا۔ جب یہ لوگ مدینہ واپس آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ واقعہ سنایا، آپؐ نے حضرت مقدادؓ کو بلا کر سخت تنبیہ فرمائی، اور فرمایا کہ بروز قیامت تمہارا کیا جواب ہوگا جب کلمہ لا الہ الا اللہ تمہارے مقابلہ میں دعویدار ہوگا؟ اس واقعہ پر یہ آیت نازل ہوئی: ’’وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقَی اِلَیْکُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا‘‘۔ مذکورہ آیت کے بارہ میں ان دو واقعات کے علاوہ دوسرے واقعات بھی منقول ہیں لیکن محققین اہل تفسیر نے فرمایا کہ ان روایات میں تعارض نہیں ہوسکتا کہ یہ چند واقعات مجموعی حیثیت سے نزول کا سبب ہوئے ہوں ۔ آیت کے الفاظ میں القٰی اِلیکمُ السَّلٰم ارشاد ہے، اس میں لفظ ’’سلام‘‘ سے اصطلاحی سلام مراد لیا جائے تب تو پہلا واقعہ اس کے ساتھ زیادہ چسپاں ہے، اور اگر سلام کے لفظی معنی سلامت اور اطاعت کے لیے جائیں تو یہ سب واقعات اس میں برابر ہیں ، اسی لیے اکثر حضرات نے ’’سلام‘‘ کا ترجمہ اس جگہ اطاعت کا کیا ہے۔