اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
دل چسپی اور توجہ وفکر بدکاری کا ذریعہ ثابت ہوتے ہیں ، یہ سب شیطان کے وار اور اس کے حربے اور ہتھکنڈے ہیں ، جنہیں وہ انسان کو آلودۂ عصیاں کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے، اسی لئے فرمایا گیا ہے: یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ، وَمَنْ یَّتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّیْطَانِ فَاِنَّہٗ یَأْمُرُ بِالْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ۔ (النور: ۲۱) ترجمہ: اے ایمان والو! شیطان کے نقش قدم پر مت چلو، جو شیطان کے نقش قدم پر چلے گا تو وہ اسے بے حیائی اور برائی کی راہ ضرور سجھائے گا۔ حدیث میں فرمایا گیا ہے: اِیَّاکُمْ وَمُحَقِّرَاتِ الذُّنُوْبِ فَاِنَّہُنَّ یَجْتَمِعْنَ عَلَی الرَّجُلِ حَتّٰی یُہْلِکْنَہٗ۔ (لہیب الشہوات: ۲۵، بحوالہ مسند احمد) ترجمہ: چھوٹے اور معمولی گناہوں سے بچو؛ کیوں کہ اگر یہ معمولی گناہ بھی جمع ہوجائیں تو انسان کو تباہ کرڈالیں ۔ حکیم الامت مجدد الملت حضرت تھانویؒ کا ملفوظ ہے: ’’گناہِ کبیرہ اور صغیرہ کی مثال تو ایسی ہے جیسے آگ کا بڑا انگارہ اور چھوٹی چنگاری، چھوٹی چنگاری جلادے گی، جس طرح بڑا انگارہ جلاڈالتا ہے، یا جیسے چھوٹا سانپ اور بڑا سانپ، ڈسنے میں دونوں برابر ہیں ، اسی طرح گناہ، صغیرہ ہو چاہے کبیرہ ہو، جب وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا عمل ہے تو پھر کیا صغیرہ اور کیا کبیرہ‘‘۔ (اصلاحی خطبات ۶؍۲۴۲) امام ابن القیمؒ نے لکھا ہے: ’’محققین کا کہنا ہے کہ بندے کو یہ نہ دیکھنا چاہئے کہ گناہ بڑا ہے یا چھوٹا؛ بلکہ گناہ کے ذریعہ جس اللہ کی نافرمانی اور اس کے حکم کی پامالی ہورہی ہے، اس کا مقام اور عظمت دیکھنا چاہئے، اگر یہ بات پیدا ہوجائے تو انسان ہر گناہ سے بچنے لگے گا۔ ایک بااختیار وباعظمت حاکم اپنے ایک خادم کو کسی کام سے کسی دور دراز علاقہ میں جانے کا حکم دے، اور دوسرے