اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
صَاحِبُ مَکْسٍ لَغُفِرَلَہٗ۔ (مسلم، ایضاً) ترجمہ: خالد رک جاؤ! بخدا! اس خاتون نے ایسی سچی توبہ کی ہے کہ اگر ناجائز وصولی کرنے والا مجرم بھی ایسی توبہ کرے تو معاف کردیا جائے۔ غامدیہ کے انتقال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کی نماز جنازہ پڑھاتے ہیں ، حضرت عمر ص عرض کرتے ہیں کہ یہ تو زناکار تھی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کی نماز جنازہ پڑھ رہے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَۃً لَوْ قُسِمَتْ بَیْنَ سَبْعِیْنَ مِنْ اَہْلِ الْمَدِیْنَۃِ لَوَسِعَتْہُمْ، وَہَلْ وَجَدْتَّ تَوْبَۃً اَفْضَلَ مِنْ اَنْ جَادَتْ بِنَفْسِہَا لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ۔ (ایضاً) ترجمہ: اس عورت نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر یہ توبہ مدینہ کے ستر گنہ گاروں میں تقسیم کردی جائے تو سب کی معافی کے لئے بس ہوجائے، اللہ کو راضی کرنے کے لئے جان قربان کردینے سے بڑی اور بہتر اور کوئی توبہ ہوسکتی ہے؟ حضرت ابوہریرہ صاپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ: ’’ایک رات عشاء کی نماز رسول اکرم اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اقتداء میں پڑھ کر نکلا، دیکھا کہ ایک خاتون نقاب میں ملبوس راستے پر کھڑی ہے، اس نے کہا: ابوہریرہ! مجھ سے بہت بڑا گناہ صادر ہوگیا ہے، کیا میرے لئے توبہ کی گنجائش ہے؟ میں نے پوچھا: کیا گناہ ہوا ہے؟ وہ بولی کہ میں نے زنا کیا، اور زنا کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے کو بھی مارڈالا، اس پر حضرت ابوہریرہ صنے کہا: تو خود بھی ہلاک ہوئی اور معصوم جان کو بھی ہلاک کیا، تیرے لئے توبہ کی گنجائش نہیں ہے، یہ سنتے ہی وہ عورت چیخ پڑی اور بے ہوش ہوکر گرپڑی، میں چلاگیا، دل میں سوچا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم موجود ہیں ، تو مجھے مسئلہ بتانے کی کیا ضرورت ہے؟ صبح کو میں خدمت نبوی میں حاضر ہوا، پورا واقعہ بتایا، واقعہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بآواز بلند انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا، اور فرمایا کہ تم خود ہلاک ہوئے اور اسے بھی ہلاک کردیا، کیا تم کو یہ آیتِ کریمہ معلوم نہ تھی، پھر سورۂ فرقان کی وہ آیات پڑھیں جن میں اللہ کے نیک بندوں کے اوصاف کا ذکر