اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
ارد گرد کے لوگ احمد یتیم سے بڑا حسد کیا کرتے تھے، ان کو پتہ تھا کہ یہ اس کا حقیقی بیٹا نہیں ہے؛ بلکہ اس کا پالا ہوا ہے۔ کچھ عرصہ کے بعد طولون کی وفات ہونے لگی، تو اس نے اپنے بیٹے ابوالجیش کو اپنا نائب بنایا اور پوری سلطنت اس کے حوالے کردی، اور یہ وصیت کی کہ بیٹا! یہ (احمد) تیرا بھائی ہے، میں نے اس کی پرورش کی ہے،تم بھی ساری عمر اس کا خیال رکھنا، اس کے بعد وہ فوت ہوگیا۔ چناں چہ ابوالجیش نے کنٹرول سنبھالا تو اس نے بھی احمد یتیم کے ساتھ اچھا تعلق رکھا۔ ایک مرتبہ ابوالجیش کو کسی چیز کی ضرورت پڑی، اس نے احمد یتیم کو بلایا اور کہا کہ یہ چابی لیں اور فلاں راستے سے آپ میرے کمرے میں چلے جائیں اور یہ چیز اٹھاکر لے آئیں ، اس نے دن میں وہ راستہ کھولا اور کمرے میں چلاگیا، وہ جیسے ہی اس کمرے میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ ابوالجیش کی ایک باندی جو بڑی خوب صورت تھی، اور ابوالجیش اس کے ساتھ بڑی محبت کرتا تھا، وہ اس وقت اس کمرے میں کسی خادم کے ساتھ زنا کی مرتکب ہورہی تھی، اس باندی کو توقع ہی نہیں تھی کہ دن کے وقت بھی مرد کمرے میں واپس آسکتا ہے، جیسے ہی اس نے دروازہ کھولا اور یہ معاملہ دیکھا تو وہ مرد بھاگ گیا، اور عورت احمد یتیم کو اپنے چکر میں پھنسانے لگی، اور اس کی منت سماجت کرنے لگی کہ تم بھی میرے ساتھ وہی کرو جو وہ کررہا تھا؛ لیکن اس کے دل میں نیکی تھی؛ لہٰذا کہنے لگا: ہرگز نہیں ۔ قَالَ مَعَاذَ اللّٰہِ اِنَّہٗ رَبِّیْٓ اَحْسَنَ مَثْوَایَ۔ (یوسف: ۲۳) سبحان اللہ، نیک لوگوں کا یہی دستور رہا ہے، چناں چہ احمد یتیم اس بدکار عورت کے چنگل سے نکل گئے اور وہ چیز اٹھاکر اس کمرے سے واپس آگئے۔ اب اس باندی کے دل میں یہ بات کھٹک گئی کہ اگر یہ جاکر میری شکایت لگائے گا تو مجھے قتل کردیا جائے گا؛ لیکن انہوں نے اس کا پردہ رکھا اور آکر وہ چیز ابوالجیش کو دے دی اور بات گول کردی۔