اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
ترجمہ: جب تمہارے پاس اس شخص کا رشتہ آئے جس کے دین واخلاق کو تم پسند کرتے (اور مطمئن) ہو، تو تم اس کے ساتھ لڑکی کا نکاح کردو، اگر تم ایسا نہ کروگے (بلکہ مال وجمال کی طمع میں رہوگے) تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد پھیلے گا۔ (لڑکیاں بے نکاح رہ جائیں گی) واقعہ یہ ہے کہ خانگی نظام میں ایک تو خوش اخلاقی مطلوب ہے، دوسرے ایسی رفاقت مطلوب ہے جو اصلاحِ دین کا ذریعہ ثابت ہو؛ اس لئے اگر لڑکی کے لئے با اخلاق دین دار خاوند مل جائے تو اسے غنیمت سمجھنا چاہئے اور فوراً نکاح کردینا چاہئے۔ صاحب تحفۃ الاحوذی لکھتے ہیں : ’’اگر لڑکی کے سرپرست یہ طے کریں کہ وہ لڑکی کا نکاح مال دار ہی سے کریں گے تو اس کا نقصان یہ ہوگا کہ بہت سے لوگ بے نکاح رہ جائیں گے، اور زنا میں ابتلاء بڑہتا چلا جائے گا، واضح رہے کہ ایسا کرنے سے صلاح وعفت کا جوہر کم ہوتا جاتا ہے، اور فتنہ وفساد بڑھتا جاتا ہے‘‘۔ (تحفۃ الاحوذی: مولانا عبد الرحمن مبارک پوری ۲؍۱۶۹) رشتہ کا ارادہ رکھنے والے مرد سے حدیث میں کہا جارہا ہے: تُنْکَحُ الْمَرْأَۃُ لِاَرْبَعٍ: لِمَالِہَا، وَلِحَسَبِہَا، وَجَمَالِہَا، وَلِدِیْنِہَا، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّیْنِ۔ (صحیح بخاری: کتاب النکاح: باب الاکفاء فی الدین) ترجمہ: عورت سے نکاح اس کے مال، اس کے حسب ونسب، اس کے حسن وجمال اور اس کی دین داری کی وجہ سے کیا جاتا ہے، پس تم دین دار لڑکی کو لازم پکڑو۔ اس حدیث میں یہ واضح کیا جارہا ہے کہ لوگ بالعموم نکاح کے لئے عورت کے انتخاب میں چار چیزیں پیش نظر رکھتے ہیں : (ـ۱) عورت کی دولت اور مال داری دیکھتے ہیں ؛ تاکہ خود اس سے فائدہ اٹھا سکیں ۔ (۲) عورت کی خاندانی خوبیاں اور حسب دیکھتے ہیں ؛ تاکہ معاشرے میں باعزت