اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
بغیر اجازت لئے لڑکی کا نکاح ازخود کردیں اور لڑکی کو وہ رشتہ پسند نہ ہو، تو لڑکی کو نکاح فسخ کرنے اور رشتہ ختم کرنے کا اختیار حاصل ہے، ملحوظ رہے کہ یہ اختیار شوہر دیدہ اور کنواری دونوں طرح کی عورتوں کو حاصل ہے۔ شوہر دیدہ کے سلسلہ میں یہ حدیث موجود ہے کہ خنساء بنت خذام انصاریہ کا نکاح ان کے والد نے ان سے پوچھے بغیر کردیا، وہ بیوہ تھیں ، جنگ احد میں ان کے شوہر شہید ہوگئے تھے، جب ان کو پتہ چلا تو انہوں نے اس نکاح کو ناپسند کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس نکاح کو رد کردیا۔ (بخاری کتاب النکاح: باب اذا ا زوج ابنتہ وہی کارہۃ فنکاحہ مردود) کنواری عورت کے سلسلہ میں یہ مروی ہے کہ ایک کنواری لڑکی خدمتِ نبوی میں آئی، اور عرض کیا کہ میرے باپ نے میری شادی کردی ہے، اور میری مرضی نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو نکاح ختم کرنے کا اختیار دے دیا۔ (ابن ماجہ: کتاب النکاح، باب من زوج ابنتہ وہی کارہۃ) اسی مضمون کی ایک روایت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے منقول ہے کہ ایک نوجوان خاتون ان کے پاس آئیں اور بولیں کہ میرے باپ نے اپنے بھتیجے سے میرا نکاح کردیا ہے، وہ لڑکا مناسب نہیں ہے، میں اس پر راضی نہیں ہوں ، میں کیا کروں ؟ حضرت عائشہؓ نے ان کو روکے رکھا، جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم آئے، اور مقدمہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے آیا توآپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے نکاح ختم کرنے کا اختیار دے دیا، اِس پر وہ خاتون بولی کہ اب میں یہ رشتہ منظور کرلیتی ہوں ، میں تو صرف یہ جاننا چاہتی تھی کہ عورت کو اختیار حاصل ہے یا نہیں ؟ میں عورتوں کو یہ مسئلہ بتانا چاہتی تھی کہ سرپرستوں اور والدین کو زبردستی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ (نسائی: کتاب النکاح: البکر یزوجہا ابوہاوہی کارہۃ،وابن ماجہ: باب من زوج ابنتہ) حاصل یہ ہے کہ شادی کے سلسلہ میں اسلام نے عورتوں کو وسیع اختیارات عطا کئے