اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
طَعَامُ اَوَّلُ یَوْمٍ حَقٌّ، وَطَعَامُ یَوْمِ الثَّانِیْ سُنَّۃٌ، وَطَعَامُ یَوْمِ الثَّالِثِ سُمْعَۃٌ، وَمَنْ سَمَّعَ سَمَّعَ اللّٰہُ بِہٖ۔ (ترمذی: کتاب النکاح: باب ما جاء فی الولیمۃ) ترجمہ: پہلے دن کا کھانا برحق ہے، دوسرے دن کا کھانا دینی راہ ہے، تیسرے دن کا کھانا شہرت طلبی ہے، جو بھی دکھاوا کرے گا اللہ اسے رسوا کردے گا۔ جمہور علماء وفقہاء کا مسلک یہی ہے کہ ولیمہ دو دن تک جائز ہے، اس سے زیادہ مکروہ ہے، بعض صحابہ سے سات دن تک دعوتِ ولیمہ منقول ہے؛ لیکن وہ اس صورت پر محمول ہے جب ہر روز کے مدعو افراد الگ الگ ہوں ۔ (ملاحظہ ہو: درس ترمذی ۳؍۳۷۰-۳۷۱) حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے: ’’زمانۂ جاہلیت میں لوگ میاں بیوی کے ملاپ سے پہلے ولیمہ کرتے تھے، اسلام نے اس طریقہ کو بدلا، اور زفاف کے بعد ولیمہ مسنون کیا، ولیمہ مسنون کرنے میں مصلحت یہ ہے کہ اس کے ذریعہ لطیف پیرائے میں نکاح کی تشہیر ہوتی ہے، چوں کہ خانگی زندگی کے نظم وانتظام کے لئے بیوی کی ضرورت ہے، پس حسب خواہش کسی عورت سے نکاح ہوجانا اللہ کی بڑی نعمت ہے، جس کا شکر بجالانا ضروری ہے، ولیمہ اس کی عملی شکل ہے، اور اس میں بیوی اور اس کے خاندان کے ساتھ حسن سلوک بھی ہے، ولیمہ کی کوئی حد متعین نہیں ، اسراف سے بچتے ہوئے ہر مقدار جائز ہے، اور اوسط درجہ کا ولیمہ ایک بکری ہے، اسی کا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عبد الرحمن بن عوف صکو حکم دیا تھا، اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے ولیمہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک بکری ذبح کی تھی، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے ولیمہ میں کھجور اور ستو کھلایا تھا، بعض ازواجِ مطہرات کے ولیمہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دو مد آٹا خرچ کیا تھا، یہ چھوٹا ولیمہ ہے‘‘۔ (تحفۃ الالمعی شرح ترمذی: حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری مدظلہ ۳؍۵۰۹-۵۱۰) یہ ملحوظ رہے کہ ولیمہ کی کوئی حد متعین نہیں ہے، اسراف سے بچتے ہوئے ہرمقدار درست ہے، اوسط درجہ ایک بکری ہے، حضرت عبد الرحمن بن عوف صنے شادی انتہائی سادگی سے کی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو شرکت کی زحمت بھی نہ دی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو معلوم ہوا تو آپ نے اظہار