اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
وباندیوں میں سے نیک لوگوں کا نکاح کراؤ۔ بقول قرطبی علیہ الرحمہ: زَوِّجُوْا مَنْ لاَ زَوْجَ لَہٗ مِنْکُمْ، فَاِنَّہٗ طَرِیْقُ التَّعَفُّفِ۔ (تفسیر قرطبی ۲؍۲۳۹) ترجمہ: جو تم میں غیر شادی شدہ ہوں ان کا نکاح کرو، یہی پاک دامنی کی راہ ہے۔ سید قطب شہیدؒ لکھتے ہیں : ’’قرآن کا یہ حکم پوری جماعت مسلمہ کو ہے، بیشتر علماء اسے استحبابی حکم قرار دیتے ہیں ، ہماری رائے یہ ہے کہ یہ واجبی حکم ہے، اور اس کے معنی یہ نہیں کہ مسلمانوں کا حاکم وامام بے نکاح کو نکاح پر مجبور کرے؛ بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ نکاح کی رغبت وضرورت رکھنے والے افراد کی مدد کرنا اور ان کو بدکاری سے بچانا مسلمانوں کی واجبی ذمہ داری ہے، سماج کو زنا سے محفوظ رکھنا ضروری ہے، اور اس کا ذریعہ صرف یہ ہے کہ بے نکاحوں کے نکاح میں تعاون کیا جائے؛ اس لئے یہ بھی ضروری ہوگا‘‘۔ (فی ظلال القرآن ۴؍۲۵۱۵) احادیث کا جائزہ لیا جائے تو بے نکاحوں کے تعاون کی متعدد مثالیں موجود ملتی ہیں ۔ حضرت ابوہریرہ صبیان کرتے ہیں کہ جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو پیغام نکاح دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ شادی کے بعد ولیمہ بھی تو کرنا ہوگا، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس ولیمہ کا نظم نہیں تھا، ا س موقع پر صحابہ ث نے ذمہ داری لی، مثلاً حضرت سعد صنے گوشت کی ذمہ داری لی، اسی طرح تعاون سے ولیمہ ہوا۔ (مسند احمد ۵؍۳۵۹) حضرت ربیعہ اسلمی صکی ایک مفصل حدیث ہے، وہ بیان کرتے ہیں : ’’میں حضور اکرم اکی خدمت کرتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ربیعہ! کیا تم شادی نہیں کروگے؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ا! بخدا میں نادار ہوں ، میرے پاس اتنا مال نہیں کہ خرچ چلاسکوں ، پھر میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں کوتاہی نہیں کرنا چاہتا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم خاموش رہے، کچھ دنوں کے بعد دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پھر فرمایا: ربیعہ! کیا تم شادی نہ کروگے؟ میں نے وہی جواب دیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم خاموش ہوگئے، میں نے دل میں سوچا کہ میرے