اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں ، یہی میرا طریقہ ہے، اور جو میرے طریقے کو اپنائے وہ مجھ سے ہے، اور جو نہ اپنائے وہ مجھ سے نہیں ہے، پھر انہیں لوگوں کے بارے میں قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی: یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبَاتِ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا، اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ۔ (المائدۃ: ۸۷) ترجمہ: اے ایمان والو! جو پاک چیزیں اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں انہیں حرام نہ کرو، اور حد سے تجاوز مت کرو، اللہ کو حد سے تجاوز کرنے والے پسند نہیں ہیں ۔ (ملاحظہ ہو: تفسیر ابن کثیر ۲؍۸۷) اسی سے ملتا جلتا دوسرا واقعہ یہ بھی ہے کہ تین صحابہ ث آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی عبادت کا حال ازواجِ مطہرات سے معلوم کرنے آئے، پھر انہوں نے یہ طے کیا کہ رات بھر نماز پڑھیں گے، ہمیشہ روزے سے رہیں گے اور عورتوں سے الگ رہیں گے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا: أَمَا وَاللّٰہِ: اِنِّیْ لَاَخْشَاکُمْ لِلّٰہِ وَاَتْقَاکُمْ لَہٗ لَکِنِّیْ اَصُوْمُ وَأُفْطِرُ، وَأُصَلِّیْ وَأَرْقُدُ، وَأَتَزَوَّجُ النِّسَائَ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ۔ (بخاری: کتاب النکاح: باب الترغیب) ترجمہ: سنو! بخدا میں تم میں سب سے بڑھ کر اللہ سے ڈرنے والا اور پرہیزگار ہوں ، مگر میں روزے رکھتا بھی ہوں اور نہیں بھی رکھتا، نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں ، اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں ، جو میرے اس طریقے سے اعراض کرے گا وہ مجھ سے نہیں ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ص کا بیان ہے کہ ایک بار حضرت عثمان بن مظعون صنے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے تبتل (عورتوں سے انقطاع اور جدائی اختیار کرنے) کی اجازت مانگی،