اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
اَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَاَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، وَمَنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَعَلَیْہِ بِالصَّوْمِ، فَاِنَّہٗ لَہٗ وِجَائٌ۔ (صحیح بخاری: کتاب النکاح، باب من لم یستطع الباء ۃ فلیصم) ترجمہ: اے جوانو! تم میں سے جو نکاح کی طاقت رکھتا ہو وہ ضرور نکاح کرلے؛ کیوں کہ اسی سے نگاہ میں احتیاط آتی ہے اور شرم گاہ کی حفاظت ہوتی ہے، اور جو حقوقِ زوجیت ادا کرنے پر قادر نہ ہو وہ روزے رکھے؛ کیوں کہ روزہ شہوت توڑنے کا ذریعہ ہے۔ اس حدیث کے ذیل میں محدثین وفقہاء نے نکاح کے شرعی حکم کی تفصیل ذکر کی ہے، اس سلسلہ میں ایک بحث اس سے متعلق ہے کہ نکاح عبادات کے باب سے ہے یا مباحات کے باب سے؟ حضراتِ احناف وحنابلہ نکاح کو عبادات میں شمار کرتے ہیں ۔ حضراتِ شافعیہ نکاح کو مباحات میں شمار کرتے ہیں ۔ حضراتِ مالکیہ ایک قول کے مطابق یہ فرماتے ہیں کہ نکاح ’’اقوات‘‘ میں سے ہے، قوت اس چیز کو کہتے ہیں جس کے بغیر زندگی گذارنا مشکل ہوجاتا ہے، اور نکاح ایسی چیز ہے کہ اس کے بغیر زندگی گذارنا مشکل ہوجاتا ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ نکاح تفکہات کی قبیل سے ہے، اور فواکہ کی شان یہ ہوتی ہے کہ استعمال ہوں تو بہت بہتر، نہ ہوں تو کوئی حرج نہیں ۔ اسی طرح نکاح ہو تو بہت بہتر، نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔ (ملاحظہ ہو: کشف الباری شرح بخاری: کتاب النکاح ۱۳۰، بحوالہ فتح القدیر واوجز المسالک) اسی طرح حضراتِ احناف وحنابلہ کے نزدیک نوافل میں اشتغال کی بہ نسبت نکاح افضل ہے، جب کہ حضراتِ شافعیہ کے نزدیک نوافل کا اشتغال نکاح سے زیادہ افضل ہے۔ (ایضاً) امت کے تقریباً تمام علماء وفقہاء غلبۂ شہوت اور مبتلائے زنا ہونے کے اندیشہ کی صورت میں نکاح کو لازم قرار دیتے ہیں ، ہاں اگر یہ غلبہ وخدشہ نہ ہو، اور عام نارمل حالات ہوں تو فقہاء کے اقوال مختلف ہیں ۔ امام ابن حزم ظاہری، ابوداؤد ظاہری وغیرہ عام حالات میں بھی نکاح کو فرض ولازم