اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
وتوافق رہے، چناں چہ میں اس خاتون کے گھر گیا، پیغام نکاح دیا اور اس کے والدین کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تاکید بتائی، والدین نے گویا اس کو (میرے اسے دیکھنے کی خواہش کو) ناپسند سمجھا، وہ خاتون اندر سے سن رہی تھی، وہ آڑ سے بولی: اگر حضور ا کا حکم ہے تو تم دیکھ سکتے ہو ورنہ میں تمہیں قسم دیتی ہوں …… گویا وہ بھی اس کام کو بہت بھاری سمجھ رہی تھی، مگر حکم نبوی کی تعمیل میں تیار ہوگئی، میں نے اسے دیکھا، پھر اس سے نکاح کرلیا‘‘۔ (ابن ماجہ: کتاب النکاح: باب النظر الی المرأۃ) غور کیا جائے اس حدیث سے صحابہ کے اس معاشرے کی جھلک نظر آتی ہے جو سر تا پا عفت اور صلاح وخیر کا معاشرہ تھا، مرد عورت کو دیکھنے سے ہچکچا رہا ہے، حکم نبوی پر جاتا ہے، لڑکی کے والدین ناگواری ظاہر کررہے ہیں ، لڑکی قسم دے رہی ہے، پھر حکم نبوی کی تعمیل میں مرد عورت کو دیکھ پاتا ہے، اگر بے پردگی کا معاشرہ ہوتا تو لڑکے کو لڑکی کے والدین سے نہ اجازت کی ضرورت ہوتی، اور نہ لڑکی قسم دیتی، مگر وہ معاشرہ حیا اور پردے کا مجسم معاشرہ تھا، پردہ ان کے ہاں آج مروجہ مزین اور ہیجان انگیز نقابوں اور چادروں کا نام نہیں تھا؛ بلکہ وہ عورت کو از سر تا پا مستور رکھتے تھے، اور ان کی عفت، حیا اور پردہ سب ضرب المثل تھے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ص بیان فرماتے ہیں : ’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ایک مردے کی تدفین میں قبرستان گئے، واپسی پر اس مردے کے گھر سے گذر ہوا، گھر کے دروازے پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک خاتون کو پردے میں دیکھا، پہچان نہ سکے، پھر معلوم ہوا کہ فاطمہؓ ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے پوچھا: فاطمہ! تم یہاں کیسے؟ حضرت فاطمہؓ نے فرمایا: میں اہل خانہ کی تعزیت میں آئی تھی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا: کیا تم بھی قبرستان گئی تھی؟ حضرت فاطمہؓ نے فرمایا: نہیں ! عورتوں کے قبرستان جانے سے آپ نے منع فرمایا ہے، پھر میں کیسے جاسکتی تھی؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اگر تم قبرستان جاتی تو اس جرم میں جنت سے محروم کردی جاتی، تم جنت نہ دیکھ پاتی، جب تک کہ تمہارے باپ کا دادا جنت نہ دیکھ لیتا۔ (اشارہ حضرت عبد المطلب کی طرف ہے، کہ جس طرح وہ جنت کا