اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
اجتناب، راستے کے کنارے پر چلنے اور مردوں کے ہجوم میں داخل نہ ہونے کی سخت شرائط کے ساتھ مشروط رکھی گئی ہے، اور ایسا صرف جوہرِ عفت کے تحفظ کی خاطر ہے۔ (۳) پردۂ شرعی میں چہرے کا حکم: ضرورت کے پیش نظر عورتیں گھروں سے باہر نکلیں تو سارا جسم مستور رہنا ضروری ہے؛ البتہ چہرہ اور ہتھیلیوں کا مستور رہنا ضروری ہے یا نہیں ؟ یہ فقہاء کے درمیان مختلف فیہ مسئلہ ہے۔ اور فی الواقع یہ اختلاف سورۃ النور کی آیت قرآنی: وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلاَّ مَا ظَہَرَ مِنْہَا۔ (اپنی زینت عورتیں ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہوجائے) میں ’’الا ما ظہر منہا‘‘ کے استثناء سے پیدا ہوا ہے۔ حضرت ابن عباس ص وغیرہ نے اس استثناء کی تفسیر چہرہ اور ہتھیلیوں سے کی ہے، چناں چہ چہرہ اور ہتھیلیوں کے کھلا رکھنے کو فقہاء کی ایک جماعت اسی تفسیر کی بنیاد پر جائز قرار دیتی ہے، امام ابوحنیفہؒ کا مسلک بھی یہی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ص وغیرہ نے اس استثناء کی تفسیر برقع اور چادر سے کی ہے، چناں چہ چہرہ وغیرہ کا کھلا رہنا اس تفسیر کے پیش نظر جائز نہیں ہے۔ حضرت امام مالک وشافعی واحمد رحمہم اللہ کا یہی مسلک ہے کہ عورت کے لئے گھر سے باہر نکلنے کی صورت میں پورا جسم مع چہرہ چھپانا ضروری ہے۔ ملحوظ رہے کہ احناف اور دیگر جو حضرات چہرہ کھلا رکھنا جائز قرار دیتے ہیں ، وہ بھی اس جواز کی شرط کے طور پر فتنہ کا اندیشہ نہ ہونا اور چہرے پر بناؤ سنگار نہ ہونا ذکر کرتے ہیں ، اور چوں کہ عورت کی زینت کا اصل مرکز چہرہ ہے، اس لئے بالعموم اُس کو کھلا رکھنے میں فتنے کا اندیشہ ہوتا ہے؛ اس لئے اسے بھی مستور رکھنا ضروری قرار پائے گا۔ متأخرین احناف نے اس مسئلے میں فتویٰ ائمۂ ثلاثہ کے قول پر دیا ہے، اس کا حاصل یہ ہوا کہ اب بالاتفاق پردے کا یہ تیسرا درجہ (چہرہ کھلا رکھنا) ممنوع ہے، اور عورت کا اصل پردہ گھروں میں قیام ہے جب کہ ضرورۃً باہر نکلنے کی صورت میں پورے جسم کا مع چہرہ مستور رکھنا ضروری ہے۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: معارف القرآن ۷؍۲۰۴-۲۲۰)