اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوْبُہُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ، أَلاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ۔ (الرعد: ۲۸) ترجمہ: جو لوگ صاحب ایمان ہیں اور جن کے دل اللہ کی یاد سے مطمئن ہیں ، سنو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو سکون ملا کرتا ہے۔ جب کہ اس کے برخلاف بدکاری اور بدعملی کے عادی افراد کے بارے میں قرآن یہ کہتا ہے: وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکاً، وَّنَحْشُرُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اَعْمیٰ۔ قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِیْ اَعْمیٰ، وَقَدْ کُنْتُ بَصِیْراً۔ قَالَ کَذٰلِکَ اَتَتْکَ اٰیَاتُنَا فَنَسِیْتَہَا، وَکَذٰلِکَ الْیَوْمَ تُنْسیٰ۔ (طٰہٰ: ۱۲۴-۱۲۶) ترجمہ: جو بدبخت میرے درسِ نصیحت سے منہ موڑے گا اس کے لئے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی، اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے، وہ کہے گا: پروردگار! دنیا میں تو میں آنکھوں والا تھا، یہاں مجھے اندھا کیوں اٹھایا؟ اللہ فرمائے گا: ہاں ! اسی طرح تو ہماری آیات کو جب کہ وہ تیرے پاس آئی تھیں ، تونے بھلادیا تھا، اسی طرح آج تو بھلایا جارہا ہے۔ واضح کردیا گیا کہ اعراض، انکار، بدکاری اور بدعملی کی روش پر چلنے والے افراد اِس دنیوی زندگی میں ہمہ وقت تنگی اور محرومی سے دوچار رہیں گے، وہ سکون، اطمینان، فراغ خاطر، شرحِ صدر، راحتِ قلب اور انبساطِ روح کی تمام لذتوں سے محروم رہیں گے۔ بدکاری اور نفسیاتی الجھن میں تلازم ہے، بدکار انسان کی بے سکون زندگی، بے نور وسیاہ چہرہ، تاریک وظلمت زدہ دل اور بے سکون روح خود اس کی الجھنوں کا اعلان کرتی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس صکا قول ہے: اِنَّ لِلسَّیِّئَۃِ اِسْوِدَاداً فِیْ الْوَجْہِ وَظُلْمَۃً فِیْ الْقَلْبِ وَوَہْناً فِی الْبَدَنِ وَنَقْصاً فِی الرِّزْقِ وَبَغْضَۃً فِیْ قُلُوْبِ الْخَلْقِ۔ (الی العابثین بالاعراض: د/عبد اللہ الطیار ۳۳)