اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
پر چلتا ہے، سب سے پہلے اس کے اندر سے حیا کا جوہر گراں مایہ رخصت ہوتا ہے، اور بے حیائی اس کا مزاج بن جاتا ہے۔ حدیث میں وارد ہوا ہے: اِذَا لَمْ تَسْتَحْیِیْ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ۔ (بخاری: کتاب الادب: باب اذا لم تستحیی) ترجمہ: جب تم میں حیا نہ رہے تو جو چاہو کرو۔ علامہ خطابی کے بقول: ’’اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ جو چیز انسان کو شر کے ارتکاب سے روکتی ہے وہ اس کی حیا ہے، جب حیا کے تقاضے پر انسان عمل چھوڑ دیتا ہے تو پھر وہ ہر شر کا ارتکاب بے باک ہوکر کرتا ہے‘‘۔ (فتح الباری ۱۰؍۶۴۱) انسان اگر حیا کا التزام کرلے تو اس میں خیر غالب رہتا ہے، اور اگر انسان بے حیائی پر اتر آئے تو اس میں شر غالب آجاتا ہے، حیا ہی انسان کو شہوت پرستی کی راہ پر چلنے سے روکتی ہے۔ عربی شاعر کے بقول: وَرُبَّ قَبِیْحَۃٍ مَا حَالَ بَیْنَیِ ٭ وَبَیْنَ رُکُوْبِہَا اِلاَّ الْحَیَائٗ فَکَانَ ہُوَ الدَّوَائَ لَہَا وَلٰکِنْ ٭ اِذَا ذَہَبَ الْحَیَائُ فَلاَ دَوَائٗ ترجمہ: بہت سی برائیاں ایسی ہیں کہ ان کے ارتکاب سے صرف حیا ہی مانع بنتی ہے، ان سے بچنے کی تدبیر صرف حیا ہے، مگر جب حیا ختم ہوجاتی ہے تو کوئی مانع اور تدبیر باقی نہیں بچتی۔ (روضۃ العقلاء: ابن حبان البستی ۴۸) امام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے اس موضوع پر خوب لکھا ہے، ایک جگہ لکھتے ہیں : ’’گناہوں کی سزاؤں اور مضرات میں سے یہ بھی ہے کہ ان کی وجہ سے حیا ختم ہوجاتی ہے، حیا دلوں کی حیات کا جوہر اصل ہے، اور ہر خیر کی اساس ہے۔ صحیح حدیث میں الحیاء خیر کلہ۔ (حیا از اول تا آخر خیر ہے) فرمایا گیا ہے، حیاء کا خاتمہ ہر خیر کا خاتمہ ہے، بے حیا انسان مردے کی مانند ہے، بے حیائی اور بے غیرتی میں چولی دامن کا ساتھ ہے،