اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
بہ تکلف ایسا لب ولہجہ اختیار کریں جس میں قدرے خشونت اور روکھا پن ہو، اور کسی بدباطن کے قلبی میلان کو اپنی طرف جذب نہ کرے۔ امہات المؤمنین کو اس بارے میں اپنے مقام بلند کے لحاظ سے اور بھی زیادہ احتیاط لازم ہے؛ تاکہ کوئی بیمار اور روگی دل کا آدمی بالکل اپنی عاقبت تباہ نہ کربیٹھے‘‘۔ (تفسیر عثمانی ۲؍۳۵۱) امام جزریؒ نے نہایہ میں لکھا ہے کہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مرد کو غیر عورت سے اس طرح نرم نرم باتیں کرنے کی ممانعت فرمائی ہے کہ عورت اس کی طرف کچھ ریجھنے لگے، حضرت عمر صکے دور خلافت میں ایک شخص کسی مرد وعورت کی طرف سے گذرا، جو باہم نرم نرم باتیں کررہے تھے، اس شخص نے اس مرد کے سرپر ایسی ضرب لگائی کہ اس کا سر پھٹ گیا۔ حضرت عمر صنے اس کا کچھ بدلہ نہ دلوایا (ضرب کو بلاقصاص قرار دیا) حضرت عمرو بن العاص ص نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عورتوں کو بغیر شوہروں کی اجازت کے غیر مردوں سے کلام کرنے کی ممانعت فرمادی ہے۔ دارقطنی میں حضرت ابوہریرہ ص کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ممانعت فرمادی ہے کہ کوئی مرد اپنی بیوی اور باندیوں کے علاوہ دوسری عورتوں کے سامنے انگڑائی لے‘‘۔ (گلدستۂ تفاسیر ۵؍۵۶۰) امام قرطبی لکھتے ہیں : ’’حکم قرآنی کا مقصد ومنشا یہ ہے کہ مردوں سے عورتوں کی گفتگو سنجیدہ اور دو ٹوک ہو، اس میں ایسا کوئی انداز نہ ہو جس سے دل کے خفیہ دروازوں پر دستک ہونے لگے۔ عرب کے جاہلی سماج میں مرد وعورت کی باہمی گفتگو بہت ہیجان انگیز اور لوچ دار ہوتی تھی۔ قرآن نے اسے بدکاروں کی روش قرار دیا ہے‘‘۔ (الجامع لاحکام القرآن ۱۴؍۱۷۷) فقہاء نے وضاحت کی ہے کہ عورت کی آواز ستر نہیں ہے، بوقت ضرورت وہ مردوں سے بات کرسکتی ہے۔ صاحب رد المحتار نے علامہ مقدسی کے حوالہ سے لکھا ہے کہ: ’’کوئی ناسمجھ (صوت المرأۃ عورۃٌ) عورت کی آواز ستر ہے۔ کا مطلب یہ نہ سمجھے کہ بات چیت کو ہم ناجائز کہتے ہیں ؛ بلکہ ہم تو بوقت ضرورت اجنبیوں کے لئے عورتوں سے کلام کو