اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
مردوں سے بیعت کے وقت مصافحہ کا معمول تھا، عورتوں نے اسی لئے ہاتھ بڑھانے کی پیش کش کی، مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صراحت کردی کہ عورتوں سے مصافحہ ناجائز ہے۔ مقام فکر ہے کہ رسول اکرم اللہ صلی اللہ علیہ و سلم معصوم ہیں ، گناہوں سے پاک ہیں ، پھر بھی عورتوں سے مصافحہ سے گریز فرمارہے ہیں ، اور اس طرح امت کو تعلیم دی جارہی ہے کہ کتنی احتیاط کی ضرورت ہے، جب شرافت وعفت کے شاہ کار، عظمت وتقدس کے آئینہ دار نبی اکرم ا عورتوں سے مصافحہ کا عمل نہیں کرتے اور اس سے منع کرتے ہیں تو دوسروں کے لئے کمزور ایمان کے ساتھ معاشرتی فساد کے اس دور میں عورتوں سے ہاتھ ملانے کی کیسے گنجائش اور اباحت ہوسکتی ہے؟ حضرت معقل بن یسار ص رسول اکرم اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں : لَاَنْ یُطْعَنَ فِیْ رَأْسِ اَحَدِکُمْ بِمَخِیْطٍ مِنْ حَدِیْدٍ خَیْرٌ لَہٗ مِنْ أَنْ یَمَسَّ اِمْرَأۃً لاَ تَحِلُّ لَہٗ۔ (معجم کبیر للطبرانی ۲۰؍۲۱۲) ترجمہ: اجنبی عورت کو ہاتھ لگانے سے بہتر ہے کہ سر میں لوہے کے گرز مارے جائیں ۔ ارشاد نبوی ہے: مَنْ مَسَّ کَفَّ اِمْرَأۃٍ لَیْسَ مِنْہَا بِسَبِیْلٍ وُضِعَ عَلیٰ کَفِّہٖ جَمْرَۃٌ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔ (ایضا) ترجمہ: جو شخص کسی اجنبی عورت کو ہاتھ لگائے، قیامت کے روز اس کے ہاتھ پر انگارہ رکھا جائے گا۔ احادیث کی ان وعیدات وتہدیدات سے عورت کو چھونے، مصافحہ کرنے اور ہاتھ ملانے کے تعلق سے اسلام کے سخت امتناعی موقف کا اندازہ کیا جاسکتا ہے اور اس جرم کی شناعت وقباحت سمجھی جاسکتی ہے۔