اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
ترجمہ: عورتوں کے پاس تنہائی میں نہ جاؤ۔ دیور اور جیٹھ کے بارے میں سوال کیا گیا، فرمایا: اَلْحَمْوُ اَلْمَوْتُ۔ (بخاری کتاب النکاح باب لا یخلون رجل بامرأۃ) ترجمہ: وہ تو موت ہے۔ یعنی شوہر کے قریبی رشتہ داروں سے دیگر مردوں کے مقابلہ میں زیادہ خطرہ ہوتا ہے اور ان سے بہت محتاط وہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ حافظ ابن حجر کے بقول: ’’ان رشتے داروں کو دوسروں کے مقابلہ میں خلوت کے مواقع زیادہ ملتے ہیں ، ان سے دوسروں کی بہ نسبت شرکی زیادہ توقع ہے، ان کا فتنہ اوروں سے بڑھا ہوتا ہے، ان پر اجنبیوں کی طرح روک ٹوک نہیں رہتی ہے؛ اس لئے ان سے بے حد محتاط رہنا ضروری ہے‘‘۔ (فتح ۹؍۳۳۱) مشہور عرب مفکر شیخ محمد البہی نے لکھا ہے: ’’شوہر کے قریبی رشتہ داروں کا بکثرت مسلسل عورت کے پاس آنا جانا اپنے پہلو میں بڑے خطرات کا حامل ہوتا ہے، شوہر سے قرابت کا تعلق ہونے کی وجہ سے ایسے لوگ دن ورات میں کسی بھی وقت، بربنائے ضرورت یا بے ضرورت آتے رہتے ہیں ، بسا اوقات شوہر نہ چاہتے ہوئے بھی ان کی بے تکلفانہ آمد ورفت کو قرابت کے دباؤ میں مروت کی بنا پر گوارا اور انگیز کرتا ہے؛ لیکن یہ چیز کبھی کبھی بڑے ہول ناک نتائج سامنے لاتی ہے، پھر قرابتی تعلقات بکھر جاتے ہیں ، زوجین میں تفریق ہوجاتی ہے، باہم مخاصمت اور جھگڑے کا آغاز ہوجاتا ہے، اس لئے اس سلسلہ میں احتیاط روزِ اول سے ہونی چاہئے‘‘۔ (الاسلام والمرأۃ المعاصرۃ ۱۸۱) ایک حدیث میں فرمایا گیا: لَا تَلِجُوْا عَلیَ الْمَغِیْبَاتِ، فَاِنَّ الشَّیْطَانَ یَجْرِیْ مِنْ اَحَدِکُمْ مَجْرَی الدَّمِ۔ (ترمذی شریف: باب کراہیۃ الدخول علی المغیبات) ترجمہ: شوہروں کی غیر موجودگی میں عورتوں کے پاس مت جایا کرو؛