اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
ترجمہ: وہ عورتیں جو لباس میں ہوں مگر لباس کے باریک اور چست ہونے کی وجہ سے ان کا جسم جھلکتا نظر آتا ہو اور مفاتن جسم نمایاں ہوتے ہوں وہ برہنہ عورتیں ہیں ، اسی طرح دوسروں پر ریجھنے اور دوسروں کو رِجھانے والی عورتیں ہیں ، یہ سب جنت میں داخل نہ ہوسکیں گی؛ بلکہ ان کو جنت کی ہوا اور خوشبو تک نصیب نہ ہوگی۔ ایک حدیث میں وارد ہوا ہے کہ اپنے اہل وعیال کے سوا دوسرے لوگوں میں بن سنور کر جانا بہت برا ہے، اور اس کی سزا روزِ قیامت کی نہ ختم ہونے والی ظلمت ہے۔ (تفسیر ابن کثیر ۳؍۲۸۷) تبرج کی حرمت کا حکم پورے سماج کو زنا اور بدکاری کے تعفن سے محفوظ رکھنے کے لئے ہے، اور اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ آزادانہ ماحول میں جہاں عورت کو بے حجابانہ نکلنے اور اپنے حسن کی علانیہ نمائش میں کوئی باک نہ ہو، زنا اور فحاشی کے واقعات عام ہوجاتے ہیں ، بہت سے نوجوانوں کا موجودہ تہذیبِ عریانیت میں شادی سے انکار اور اسے بوجھ اور طوق سمجھنے کا مزاج اسی تبرج کی دین ہے، انہیں اپنی شہوت رانی کے ناجائز مواقع اسی عریانیت کی بدولت ملتے ہیں ، جو انہیں شادی کے بندھن میں بندھنے سے روکتے ہیں ۔ قرآن نے جاہلیت اولیٰ کے تبرج کا ذکر کیا ہے، تہذیب حاضر کی عریانیت وفحاشی اور یورپ سے امنڈنے والا سیلابِ برہنگی وبدکاری اُسی جاہلیت کی اور زیادہ بگڑی ہوئی اور لعنت زدہ متعفن شکل ہے، جس نے انسان کو جنسی ہوس ناکی میں بندر سے بھی بدتر بنادیا ہے، اسلام نے یورپ کو عفت، عدل، سلامتی، حق اور مساوات ومواسات کا تحفہ دیا تھا، جس کے جواب میں یورپ نے فحاشی اور عریانیت، شراب وقمار اور بے حجابی وتبرج کا تحفہ دیا ہے، اُنہیں ہمارا تحفہ راس نہ آیا، پر ہماری بدبختی اور کور فہمی ہے کہ ہم نے ان کا تحفہ اپنی عزت سمجھ کر قبول کیا، جس کا شاہد ہمارا پورا سماج ہے۔ بقول علامہ اقبال ؒ: فرنگیوں کو عطا خاکِ سوریا نے کیا ٭ نبیٔ عفت و غم خواری و کم آزاری