اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
’’گارل مارکس‘‘ نے جب عقیدۂ الوہیت میں بگاڑ ڈالا تو اس سے پوچھا گیا تھا کہ اس عقیدے کا بدل کیا ہے؟ اس نے بے ساختہ جواب دیا کہ اس کا بدل تھیٹر ہے، اس عقیدے کے حاملین کو طاؤس ورباب، نغمہ وسرود، رقص وغنا میں الجھادیا جائے تو پھر کسی عقیدے کی ضرورت باقی نہ رہے گی۔ (ایضاً) ایک طرف اسلام دشمن طاقتوں کی کرم فرمائیوں سے انتہائی ابتر ہوتی مسلم سماج کی اخلاقی صورتِ حال ہے، دوسری طرف ہماری شامت اعمال سے پوری دنیا میں مسلمانوں کی ذلت وادبار اور فلاکت وزوال کی حقیقت ہے۔ بقول شاعر: اَنیّٰ اِتَّجَہْتَ اِلیَ الْاِسْلاَمِ فِیْ بَلَدٍ تَجِدْہُ کَالطَّیْرِ مَقْصُوْصاً جَنَاحَاہٗ ترجمہ: جس علاقہ میں بھی تم اسلام اور مسلمان کا حال دیکھنا چاہو، اس کی مثال بالکل اس پرندے کی سی ملے گی جس کے بال وپر کتر دئے گئے ہوں ۔ واقعہ یہ ہے کہ: لِمِثْلِ ہٰذَا یَذُوْبُ الْقَلْبُ مِنْ کَمَدٍ اِنْ کَانَ فِیْ الْقَلْبِ اِسْلاَمٌ وَاِیْمَانٗ ترجمہ: اگر دل میں ایمان واسلام ہے تو اس جیسی صورتِ حال پر دل غم ورنج سے پھٹ پڑے گا اور آنسو رواں ہوجائیں گے۔ اس صورتِ حال سے جو حساس مسلمان بھی باخبر ہوگا وہ کبھی بھی دادِ عیش دینے کی ہمت نہیں کرے گا، اس کی نگاہ شہوت رانی کی طرف نہیں ؛ بلکہ امت کے مسائل کے حل اور ملت کے درد کے مداوا کے لئے اٹھے گی، وہ اس حقیقت تک رسائی حاصل کرے گا کہ یہ زمانہ اقدام کا ہے، اعراض اور تخلف کا نہیں ہے، حالات سربکف ہوکر میدان میں آنے کے متقاضی ہیں ، سوچنے، ادھیڑبن میں لگے رہنے، حکمت ومصلحت کی جستجو اور غور وخوض میں لگے رہنے کے نہیں ہیں :