اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہٗ، وَلاَ تَعْدُ عَیْنَاکَ عَنْہُمْ، تُرِیْدُ زِیْنَۃَ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا، وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوَاہُ وَکَانَ اَمْرُہٗ فُرُطاً۔ (الکہف: ۲۸) ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ و سلم پنے آپ کو ان کے ساتھ مقید وپابند کرلیجئے جو محض اللہ کی رضا جوئی کے لئے صبح وشام اس کی بندگی کرتے ہیں ، دنیوی زندگی کی رونق کے خیال سے آپ کی توجہات ان سے ہٹنے نہ پائیں ، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم س کا کہنا نہ مانئے جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا اور جو اپنی خواہش نفس کا غلام ہے اور جس کا معاملہ حد سے آگے بڑھ چکا ہے۔ واضح کردیا گیا ہے کہ اہل ایمان کا تعلق، انس ومحبت، معاونت ومشورہ سب اللہ کے نیک بندوں سے ہونا چاہئے، اہل ایمان کو قرآن میں تقویٰ اور {کونوا مع الصادقین} (سچوں اور نیکوں کے ساتھ رہنے) کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت عمر ص کا قول ہے: عَلَیْکَ بِاِخْوَانِ الصَّفَا وَالصِّدْقِ، فَعِشْ فِیْ اَکْنَافِہِمْ، فَاِنَّہُمْ زِیْنَۃٌ فِیْ الرَّخَائِ، وَعُدَّۃٌ فِی الْبَلاَئِ۔ (الاخوۃ جاسم المہلہل ۳۸) ترجمہ: مخلص، صداقت شعار اور صالح دوستوں سے رابطہ استوار رکھو، انہیں کے سایۂ صحبت میں رہو؛ کیوں کہ وہ خوش حالی میں ساتھ رہتے ہیں اور بدحالی میں مددگار ہوتے ہیں ۔ اسلاف کا یہ قول مشہور ہے: لَیْسَ شَیْئٌ اَنْفَعَ لِلْقَلْبِ مِنْ مُخَالَطَۃِ الصَّالِحِیْنَ وَالنَّظْرِ اِلیٰ اَفْعَالِہِمْ، وَلَیْسَ شَیْئٌ اَضَرَّ عَلیَ الْقَلْبِ مِنْ مُخَالَطَۃِ الْفَاسِقِیْنَ وَالنَّظْرِ اِلیٰ اَفْعَالِہِمْ۔ (ایضاً) ترجمہ: نیکوں کی صحبت اور ان کے افعال پر نگاہ رکھنے سے زیادہ نفع بخش