اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
ساتھ اور مرد کی مرد کے ساتھ شہوت رانی، ہم جنس پرستی، مرد کی اپنی بیوی یا دوسری عورتوں سے پچھلے مقام پر شہوت رانی وغیرہ کو حرام قرار دیا ہے، جو شادی کرسکتا ہے اسے شادی کی تاکید اور جو نہیں کرسکتا اور شہوانی تقاضے زور آور ہوں اسے روزوں کی پابندی کا حکم، پست نگاہی کی تلقین، تبرج اور بے حجابی پربندش، زنا پر سخت سزاؤں کا نظام سب اسی مقصد سے ہے کہ معاشرے میں مرد وعورت کا تعلق نکاح کی جائز اساس ہی پر استوار ہو، اور وہ بقاء نسل اور سنت انبیاء کی تنفیذ کا ذریعہ ثابت ہو، اور کسی بھی طرح حرام شہوت رانی کے مواقع نہ پیدا ہوں ، اور مسلم سماج کا ہر فرد جذباتی (قلبی) اور عملی ہر دو سطح پر عفت کی حفاظت اپنی مسؤلیت باور کرنے لگے۔ قرآنِ کریم میں مختلف مواقع پر نکاح کا حکم شرم گاہ کی حفاظت اور انسان کو اخلاقی انحراف اور بے راہ روی سے بچائے رکھنے کی خاطر دیا گیا ہے، چناں چہ فرمایا گیا: وَاَنْکِحُوْا الْاَیَامیٰ مِنْکُمْ وَالصَّالِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَاِمَآئِ کُمْ۔ (النور:۳۲) ترجمہ: تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں اور تمہارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں ، ان کے نکاح کردو۔ روایات میں وارد ہوا ہے کہ ایک صحابی نے شادی نہ کرنے اور عورتوں سے ہمیشہ الگ رہنے کا عہد کرلیا تھا، جب یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوئی، تو آپ نے فرمایا کہ نکاح میری سنت ہے، اور میری سنت سے اعراض کرنے والا مجھ سے نہیں ہے۔ (مشکاۃ المصابیح باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ ۲۷) معلوم ہوا کہ نکاح سے اعراض رہبانیت ہے، عیسائی متشدد راہبوں کا طریقہ ہے، انبیائی طریقہ نہیں ہے۔ امام غزالیؒ نے لکھا ہے: ’’نکاح کے مقاصد وفوائد میں ایک تو ابقائے نسل ہے، دوسرے شرم گاہ اور نگاہ کی حفاظت ہے‘‘۔ (احیاء العلوم ۲؍۲۴)