اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
کروگے تو روئے زمین پر فتنہ اور بڑا فساد پھیل جائے گا۔ اگر ہماری خواتین اور ان کے سرپرست اِس ارشاد نبوی کی اہمیت سمجھ لیں ، اور رشتوں کے انتخاب میں دین کو معیار بنانے کی فکر اور مزاج پیدا ہوجائے تو ہماری ازدواجی زندگی مسرتوں اور سعادتوں کا گہوارہ بن جائے، ہمارا گھر برکتوں اور رحمتوں کا مرکز بن جائے اور ہماری اولاد نیک طینت، اطاعت شعار اور خدمت گذار بن جائے۔ حضرت جلیبیبؓ صحابی رسول ہیں ، انتہائی پستہ قد اور بدشکل تھے، کہیں ان کا رشتہ طے نہیں ہوپاتا تھا، آپ نے انصار کے ایک معزز خاندان کی ایک لڑکی سے ان کا رشتہ کرایا، واقعہ یہ ہوا کہ آپ نے ان کو لڑکی کے باپ کے پاس پیغام نکاح لے کر بھیجا، لڑکی کے والد ان کی بدشکلی دیکھ کر شش وپنج میں مبتلا ہوئے، لڑکی کو جب معلوم ہوا کہ یہ صاحب اس کا پیغام نکاح لائے ہیں ، اور آپ کے فرستادہ ہیں ، تو اس نے اپنے باپ کے سامنے قرآن کی یہ آیت پڑھی: وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلاَ مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ أَمْراً اَنْ یَکُوْنَ لَہُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ أَمْرِہِمْ۔ (الأحزاب: ۳۶) ترجمہ: اور جب اللہ ورسول کسی بات کا حتمی فیصلہ کردیں تو نہ کسی مؤمن مرد کے لئے یہ گنجائش ہے اور نہ کسی مؤمن عورت کے لئے کہ ان کو اپنے معاملے میں کوئی اختیار باقی رہے۔ پھر اس نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر خوشی سے راضی ہوں ، یہ بات سن کر آپ نے اس کے لئے خیر اور پاکیزہ زندگی کی دعا بھی فرمائی، پھر اس دعا کا اثر یہ ہوا کہ اسے دولت کی فراوانی عطا ہوئی، بعد میں حضرت جلیبیبؓ ایک غزوہ میں سات کافروں کو قتل کرکے خود شہید ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی لاش دیکھ کر فرمایا: ’’ہٰذا منی وأنا منہ‘‘ (یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں ) یعنی یہ میرا محبوب ومقرب ہے، پھر اپنے ہاتھوں پر ان کی لاش اٹھائی، اور اٹھائے رکھا، یہاں تک کہ قبر تیار ہوئی، اور ان کو دفن کردیا