اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
روشنی میں غور کیا جائے کہ شوہر اور بیوی کی باہمی رفاقت اور شرکت دوسری تمام رفاقتوں سے زیادہ گہری اور بڑھی ہوئی ہوتی ہے، اسی لئے شریعت نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ پاک دامن مرد، بدکار عورت سے، اور پاک دامن عورت، بدکار مرد سے ہرگز نکاح نہ کرے۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے: اَلزَّانِیْ لاَ یَنْکِحُ اِلاَّ زَانِیَۃً اَوْ مُشْرِکَۃً، وَالزَّانِیَۃُ لَا یَنْکِحُہَا اِلاَّ زَانٍ اَوْ مُشْرِکٌ، وَحُرِّمَ ذٰلِکَ عَلیَ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ (النور: ۳) ترجمہ: زانی نکاح نہ کرے مگر زانیہ کے ساتھ، اور زانیہ کے ساتھ نکاح نہ کرے مگر زانی یا مشرک، اور یہ حرام کردیا گیا ہے اہل ایمان پر۔ اس آیت کی تفسیر میں جو سب سے دل لگتی بات ہے وہ یہ ہے کہ زنا ایک اخلاقی طاعون ہے اور جو اس کا شکار ہوجاتا ہے اسے وہی پسند آتا ہے جو اسی طاعون میں مبتلا ہو، ایسے افراد کو عفت راس نہیں آتی؛ اس لئے ان کا رجحان اپنے ہم فطرت افراد کی طرف ہوتا ہے، اور ایسے لوگوں کے لئے ایسے ہی لوگ موزوں بھی ہوتے ہیں ۔ بدکاروں سے نکاح کی ممانعت کی کیا حکمت ہے؟ اس ذیل میں امام ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں : ’’بدکار مرد اپنی بیوی کو بدکاری ہی پر آمادہ کرتا ہے، اسی لئے لڑکی کے والدین کو حکم ہے کہ وہ بدکار مرد سے اپنی لڑکی کا نکاح نہ کریں ۔ امام شعبیؒ نے فرمایا: ’’مَنْ زَوَّجَ کَرِیْمَتَہٗ مِنْ فَاجِرٍ فَقَدْ قَطَعَ رَحِمَہَا‘‘۔ (جو اپنی بیٹی کا نکاح بدکار سے کرتا ہے وہ قطع رحمی کرتا ہے) بدکار مرد مصروفِ حرام ہوکر بیوی کا حق ادا نہیں کرتا، پھر بسا اوقات بیوی مجبور زنا ہوجاتی ہے، بالعموم یہ دیکھا جاتا ہے کہ بدکاری کے عادی افراد کے گھروں کی خواتین اس لعنت سے محفوظ نہیں رہتی ہیں ‘‘۔ (مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ ۳۲؍۱۲۱) اسی طرح جو مرد بدکار عورت سے نکاح کرتا ہے، اور جانتے بوجھتے کرتا ہے، تو وہ درحقیقت بے غیرتی کا شاہ کار ہوتا ہے، گناہ پر راضی ہونا گناہ کرنے کے برابر سمجھا گیا ہے،