اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ) کا حکم، اور احادیث میں : ’’کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ‘‘ (تم میں ہر ایک ذمہ دار ہے، اور اس سے اس کی ذمہ داری کے تعلق سے باز پرس ہوگی) کی صراحت اس کی دلیل ہے کہ شوہر اپنے اہل وعیال کو نیکیوں پر آمادہ کرے اور برائیوں سے روکے، اپنی ایمانی ذمہ داری نبھائے اور اللہ کے غضب وعذاب سے اپنے ساتھ اپنے اہل کو بچانے کی پوری فکر کرے۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے: وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلیٰ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ اٰیَاتِ اللّٰہِ وَالْحِکْمَۃِ۔ (الاحزاب: ۳۴) ترجمہ: تم اللہ کی ان آیات اور حکمت کی ان باتوں کو یاد رکھو جو تمہارے گھروں میں سنائی جاتی ہیں ۔ اس آیت میں ایک طرف عورتوں کو دینی فکر کرنے کی تاکید معلوم ہوتی ہے، اور دوسری طرف شوہروں کی یہ ذمہ داری بھی معلوم ہوتی ہے کہ وہ اپنے گھروں میں قرآن وسنت کی تعلیم وتذکیر کی فضا اور معمول بنائیں ؛ تاکہ پورا گھر دینی رنگ میں رنگ جائے، اور شریعت کے سانچے میں ڈھل جائے، اسلام کا مطالبہ یہ ہے کہ میاں بیوی دنیوی کاموں میں ایک دوسرے کے معاون، رفیق، شریک کار اور سہارا بننے کے ساتھ ہی دینی کاموں میں بھی ایک دوسرے کے مددگار بن کر گھر کو دینی ماحول دیں ، اور اولاد کی دینی تربیت کا فرض باہم انجام دیں ۔ چناں چہ دینی احکام میں بطور مثال نماز کا خصوصیت سے تذکرہ ملتا ہے۔ قرآنِ کریم میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اور آپ کے واسطے سے پوری امت کو خطاب کیا جارہا ہے: وَأمُرْ اَہْلَکَ بِالصَّلاۃِ وَاصْطَبِرْ عَلَیْہَا۔ (طٰہٰ: ۱۳۲) ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ و سلم پنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیجئے، اور خود بھی نماز کی پوری پابندی کیجئے۔ چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اور صحابہ ث کا، بالخصوص حضرت عمر فاروق ا کا یہی معمول تھا