اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
دیکھنے کی اس اجازت کا منشا یہ ہے کہ عورت کا ناک نقشہ اور رنگ وروپ معلوم ہوجائے، یہ بھی جان لیا جائے کہ لڑکی میں کوئی عیب نہیں ہے۔ جمہور علماء نکاح سے قبل دیکھنے کی اجازت دیتے ہیں ، حدیث میں دیکھنے کا جو حکم ہے وہ وجوبی نہیں ؛ بلکہ استحبابی ہے۔ ایک حدیث میں وارد ہوا ہے کہ جب تم میں سے کوئی کسی عورت کو پیغام نکاح دے تو اگر دیکھ سکتا ہو تو دیکھ لے۔ (المستدرک ۲؍۱۶۵) مزید ارشاد ہے کہ جب تم میں سے کوئی کسی عورت کو پیغام نکاح دے تو دیکھنے میں کوئی گناہ اور حرج نہیں ہے، اگرچہ عورت کو علم نہ ہو۔ (مسند احمد ۵؍۴۲۴) ان روایتوں سے واضح ہوگیا کہ دیکھنے کا حکم لازمی نہیں ؛ بلکہ استحبابی ہے۔ دیکھنے کا دائرۂ کار کیا ہے؟ اور عورت کے کتنے حصے کو دیکھا جاسکتا ہے؟ اس سلسلہ میں فقہاء کی رائیں جدا جدا ہیں ، علامہ ابن حزمؒ وغیرہ جسم کے ہر ہر حصہ کو دیکھنے کی اجازت دیتے ہیں ۔ (عمدۃ القاری ۲۰؍۱۱۹) لیکن دیگر فقہاء اس عموم کی سخت تردید کرتے ہیں ، اکثر فقہاء چہرے اور ہتھیلیوں کو دیکھنے کی اجازت دیتے ہیں ۔ (المغنی ۷؍۷۳) اور وجہ یہ بتاتے ہیں کہ چہرہ دیکھ کر جمال کا اندازہ ہوجاتاہے، اور ہتھیلیوں سے جسم کی نرمی وسختی معلوم ہوجاتی ہے۔ (الفقہ الاسلامی للزحیلی ۷؍۲۳) امام ابوحنیفہؒ نے پیر دیکھنے کی بھی اجازت دی ہے۔ (ایضاً) امام احمد بن حنبلؒ کے بقول: ’’چہرہ، گردن، ہاتھ، پاؤں ، سر، پنڈلی، ان چھ اعضاء کا دیکھنا درست ہے۔ (ایضاً) امام اوزاعیؒ کے بقول شرم گاہ کے علاوہ ہر حصۂ جسم دیکھا جاسکتا ہے۔ (فتح الباری ۹؍۲۲۷) ان تمام اقوال میں وہی قول راجح اور معقول ہے جس میں چہرہ اور ہتھیلیوں کو دیکھنے کی اجازت ہے، جسے اس سے زائد کی جستجو ہو وہ کسی تجربہ کار خاتون کے ذریعہ پتہ لگا سکتا ہے۔ حضرت انس ص سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی خاتون سے نکاح کرنا چاہا تو پہلے ایک