اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
زیادہ مقدار کی کوئی تحدید وتعیین نہیں کی گئی ہے، اسلام نے مہر کی کوئی ایسی آخری حد متعین نہیں کی ہے جس کے بعد اجازت نہ رہے؛ لیکن احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مہر کا اتنا رہنا مطلوبِ شرعی ہے جو بآسانی ادا ہوسکے۔ حضرت عمر ص نے ایک موقع پر اپنے اجتہاد سے مہر کی تحدید کرنی چاہی اور چار سو درہم سے زیادہ مہر متعین کرنے پر روک لگادی، اور یہ فرمایا کہ اس سے زیادہ مہر نہ باندھا جائے، اگر مہر کی زیادتی باعث اعزاز دینی ودنیوی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم ایسا ضرور کرتے، مگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا عمل یہ رہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بالعموم اپنی بیویوں اور صاحب زادیوں کا مہر بارہ اوقیہ چاندی سے زیادہ نہیں رکھا، اب جو چار سو درہم سے زیادہ مہر رکھے گا وہ زائد رقم بیت المال میں جمع کرے گا، اس پر قریش کی ایک خاتون نے اعتراض کیا اور کہا: اے عمرص! اس تحدید کا تمہیں کس نے اختیار دیا ہے؟ قرآن تو اس طرح کی حد بندی نہیں کرتا۔ قرآن میں تو آیا ہے: {واٰتیتم احداہن قنطاراً فلاتأخذوا منہ شیئاً} (تم نے اسے ڈھیر سا مال بھی دیا ہو تو اس میں سے کچھ واپس نہ لینا) ’’قنطار‘‘ (خزانہ اور مال کثیر) کا لفظ مہر کی کثرت بتارہا ہے، پھر تم کیسے حد بندی کرسکتے ہو؟ اس پر حضرت عمر صنے برملا اعتراف کیا کہ عورت نے درست کہا اور مرد نے غلطی کی، خدایا! مجھے معاف رکھئے، ہر آدمی عمر سے زیادہ سمجھ دار ہے، پھر فرمایا: اے لوگو! میں نے چار سو درہم سے زیادہ مہر رکھنے سے روکا تھا، مگر اب میں کہتا ہوں کہ جو شخص اپنے مال میں کم وبیش جتنا چاہے مہر رکھ سکتا ہے۔ (مجمع الزوائد ۴؍۲۸۳، الفقہ الاسلامی للزحیلی ۷؍۲۵۵-۲۵۶) اس لئے یہ بات بالکل واضح ہے کہ مہر کی آخری کوئی حد اسلام نہیں مقرر کرتا، تاہم اسلام یہ مزاج بنانا چاہتا ہے کہ مہر کی تعیین انسان اپنی ادائیگی کی وسعت وطاقت کے تناسب سے کرے۔ اس سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا انتہائی صریح، زریں اور پورے معاملۂ نکاح میں حرزِ جاں بنانے کے قابل ارشاد یہ ہے: