اسلام میں عفت و عصمت کا مقام |
|
حکومت کی ذمہ داری بھی قرار دیتا ہے، اسلامی حکومت اس تعلق سے دو کام کرسکتی ہے: (۱) ایسے شخص کے لئے مستقل آمدنی کا ذریعہ فراہم کردے؛ تاکہ وہ معاشی طور پر خوش حال ہوسکے اور اپنا نکاح خود کرسکے (۲) یا پھر بیت المال سے نکاح کے لئے خاص مالی امداد کرے۔ پہلے کام کی نظیر حضرت ابوہریرہ صکی اس روایت سے ملتی ہے: ’’ایک آدمی خدمت نبوی میں آیا، عرض گذار ہوا کہ میں نے ایک انصاری خاتون سے نکاح کرلیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مہر پوچھا: اس نے کہا: چار اوقیہ چاندی مہر ہے، اس نے اپنی ناداری ظاہر کی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اتنی رقم تو ہمارے پاس نہیں ہے؛ البتہ ہم تم کو ایک لشکر میں بھیجیں گے اور تم کو غنیمت میں مطلوبہ رقم مل جائے گی، چناں چہ قبیلۂ بنی عبس کی طرف ایک لشکر میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے بھیجا اور مطلوبہ رقم اسے مل گئی‘‘۔ (مسلم شریف) اس حدیث سے واضح ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے لئے آمدنی کا ایک جائز ذریعہ فراہم کیا، جس کے نتیجے میں وہ مہر کی ادائیگی پر قادر ہوگیا، دوسرے کام یعنی بیت المال سے نکاح کے لئے امداد کاثبوت خلفائے راشدین کے عمل سے ملتا ہے۔ حضرت عمر فاروق صنے اپنے بیٹے حضرت عاصم بن عمر ص کا نکاح کیا اور ایک ماہ تک بیت المال سے مصارف دیتے رہے، پھر منع فرمادیا۔ (ملاحظہ ہو: کتاب الاموال: ابوعبید قاسم بن سلام ۲۳۲) اسی طرح حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے دور خلافت میں امیر عراق عبد الحمید بن عبد الرحمن کو لکھا: اُنْظُرْ کُلَّ بِکْرٍ، وَلَیْسَ لَہٗ مَالٌ، فَشَائَ اَنْ تُزَوِّجَہٗ، فَزَوِّجْہُ وَاصْدُقْ عَنْہُ۔ (ایضا: ۲۵۱) ترجمہ: اگر تم کسی نکاح کے آرزو مند بے نکاح نادار کو دیکھو تو اس کا نکاح کرادو اور مہر اپنی طرف سے ادا کرادو۔ معلوم ہوا کہ اسلامی حکومت کی بے شمار ذمہ داریوں میں ایک ذمہ داری یہ بھی ہے۔ ،l،